”رہتی تو میں تمھارے گھر میں ہوں پورا دن پھر پیسے آدھے کیوں دوں” میں نے ہمیشہ کی طرح باغیانہ مشورہ دے دیا “ مجھے نیگیٹیو خیالات بہت ستاتے ہیں سوچتی ہوں جاب شروع کردوں۔“
جب کوئی بہت اپنا حتیٰ کہ غیر بھی مشکل میں ہو اسے اس سٹیٹ سے نکالنا ، اس کی بات سننا، سمجھنا اور اس کے ساتھ چلنا اور اسے یہ یقین دلانا کچھ بھی ہوجائے میں تمھارے ہر فیصلے ، ہر قدم پہ تمھارے ساتھ ہوں۔ یہ سوچ شروع میں مشکل لگتی ہے پر ہمارا ہر فیصلہ ہماری سوچ کی راہنمائی پہ ہی قائم رہتا ہے۔ ہماری زندگی ہماری سوچ کی روشن خیالی یا تنگ نظری کی مثال خود بنتی ہے
میں فزیکل جاب کر سکتی ہوں بڑے آرام سے”
“فزیکل” میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا مجھے اس کی معصومیت پہ ہنسی بھی آرہی تھی اور اس کے شوہر کی بے شمار ہوشیاریوں پہ شاید غصہ۔
“ مجھے لگتا ہے میری ساری عمر لوگوں سے لڑتے لڑتے گزر جائے گی” یہ الفاظ چند سال پہلے کسی اور کے تھے لیکن آج میرے۔ ہم سب پہ باری باری ایک جیسی ہی فیزز آتی ہیں میں نے کسی کی ہیلنگ کی تھی اور آج جس جگہ میں ہوں سب بیکار لگنے لگ جاتا ہے اور پھر جتنا جہاں جہاں ٹھیک ہوسکے اسے کرنے کی دھن میں پھر لگ جانا ، میری پاس تو بس یہی ہنر بچا ہے۔۔۔ جئے جانا اور جئے چلے جانا۔۔
میں انھیں تمھاری معصوم مسکراہٹیں ہی مانتی ہوں بالکل معصوم۔۔اب تم یا تمھاری دنیا مجھے جیسے مرضی رنج سے دوچار کردیں کیا فرق پڑتا ہے میرے پاس ویسے بھی دکھوں کی گہرائی کے علاوہ کچھ بھی میسر نہیں اور یہ گہرائی تنہائی میں کسی تاریک ، بالکل اندھی کھائی سے بھی زیادہ کربناک ہوتی جاتی ہے۔ تمھاری معصوم مسکراہٹوں کے حصار سے نکلنے کی مجھ میں تاب تھی ہی نہیں لیکن اس تکلیف سے خجل میں معدوم ہوتے دن کی بے بسی پہ حیران تھی کہ یہ اپنی تاریکی کی کوکھ سے روز سویرے کشیدتا ہے اور کس قدر خاموشی سے۔ میں بھی خاموش ہوں
اچانک دروازے پہ دستک ہوتی ہے۔ تمھاری مسکراہٹ کے گمان میں تھکی ہوئی سوچوں کو گھسیٹ کر دروازے پہ لے آئی۔ آنے والی کو دیکھ کے چہرے پہ ناگواری کے ہلکے سے تاثرات آئے کہ تمھاری مسکراہٹ اور میری تنہائی کے مابین اس مکالمے میں کسی کو مخل نہیں ہونا چاہئے تھا خیر کچھ بھی مستقل نہیں۔ نہ تمھاری مسکراہٹ۔۔۔ نہ ہی میری تنہائی۔۔۔
“آپ کو اتنے دن سے دیکھا نہیں پارک میں سوچا آپ سے ملوں آپ سے بات کرنے کو دل چاہ رہا تھا”
“حد ہے ویسے اتوار والے دن وی لوکی ساڈے کولوں ڈیوٹی کران گے” اس دن کو تو چھٹی والی فیلنگز کی ساتھ ہی طلوع ہونا چاہئے
“ یار تو ہر ہفتے میں ایک دو گھنٹے کام کے چھوڑ کے اس کی بات سن لیا کر بہت اجر ملے گا” میری دوستوں کی زندگیاں تو چلتی ہی اجر و ثواب کے فلسفے سے ہیں۔ میں تو ویسے ہی ہر ہفتے دو تین گھنٹے لیٹ ہی ہوتی ہوں اب اس ثواب کے چکر میں اور ماری جاو¿ں۔ کوئی حال نہیں
“ مجھے بہت نیگیٹیو خیالات آتے ہیں جیسے میرے بچے چھت سے گر جائیں گے” اس نے صوفے پہ بیٹھتے ہی اپنے آنے کی وجہ بتانا چاہی۔
“جہاں کہیں بھی ایسا رسک ہو آپ بچوں کو بالکونی میں مت جانے دیں۔ اگر کسی کے گھر جائیں بالکونی کا دروازہ لاک رکھوائیں۔ یہ آپ کا ہر طرح سے رائٹ ہے اور فرض بھی کہ جہاں جائیں اپنے بچوں کی حفاظت کریں “ اس کے بولنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ مینٹلی ڈسٹرب ہے
“میں پونڈ میں چھلانگ لگادوں گی” مجھے اپنی ایک دوست کی دھمکی یاد آئی جس پہ میں ہمیشہ اسے اپنے گھر کے پونڈ کی فراخ دلانہ آفر کے ساتھ ساتھ اس پونڈ کی صفائی کی درخواست بھی کرتی ہوں۔
میں اکثر سوچتی ہوں زندگی سے اتنے بھرپور لوگ خود کو موت کے حوالے کرنے کا سوچ کیسے سکتے ہیں۔ میں دوست بولتی ہوں یا تو تم اس مسئلے کو سالوو کرو یا پھر مسئلہ ہی ختم کر دو۔ خود کو ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بھلا زندگی کی تلخیوں کی وجہ سے زندگی ختم کر دینا کہاں کی عقلمندی ہے ہر سال تقریباً سات لاکھ لوگ خودکشی کرتے ہیں اتنے جتنوں سے حاصل کی جانے والی زندگی کے ساتھ یہ سلوک کوئی کیسے کر سکتا ہے ڈپریشن، سٹریس، معاشرتی ناہمواریاں، ازدواجی زندگی کی غیر ہم آہنگی، بیروزگاری، غربت ، تنہائی، اور بے شمار عوامل ایک انسان کو اس نہج تک لاتے چلے جاتے ہیں
“میں آپ کے ساتھ بات کرنے آجایا کروں؟” اس نے اتنی معصومیت سے پوچھا کہ میں نے بنا سوچے ہاں کر دی۔ میں جو خود جانے کس کرب سے گزر رہی تھی اس کی حالت دیکھ کے خود کو کمپوز کرکے اس کی مدد کرنے کی ٹھان لی۔ “ تم ساری دوستیں مل کے پاس والے مال چلے جایا کرو ، ریسٹورنٹ چلے جایا کرو۔ “
“ہم میں سے کسی کو گاڑی چلانی نہیں آتی” جواب سن کے حیرت ہوئی کہ یہ حالات۔ “ تو اوبر کر لیا کرو سب مل کے، بچوں کو سکول بھیج کے گھومنے چلے جایا کرو” اس نے بار بار اونچائی کے ڈر کا ذکر کیا جو کہ بہت عجیب تھا۔ “ پاکستان کا چکر کب لگا” میں سائیکاٹرسٹ تو نہیں پر اس بندی کی عجیب حالت بتا رہی تھی کہیں کوئی مسئلہ ہے ضرور۔
“کاموں کا اتنا بوجھ ہے اوپر سے جاب، گھر ،،، میں سوچ رہی ہوں ڈاکٹر سے کہوں کہ سٹریس تھیراپی کے چند سیشنز ہی دلوادے شاید کوئی ہوش آئے” جانے مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجھی۔ دوست کو بھی مشورہ دے مارا
“ ہاں یار سٹریس تو بہت ہے مجھے بھی پر میرے شوہر نے میرے سسرال والوں کو مطلع کردینا ہے کہ میری بیوی پاگل ہوگئی ہے “ دوست کی بات سن کے میرا سٹریس لیول آپے سے باہر ہی ہوگیا
“مطلب بندہ اتنا سا سیکریٹ بھی نہیں ہولڈکرسکتا تمھارا، حد ہے ویسے”
“دس سال ہوگئے” اس نے بڑی متانت سے کہا اور میں نے دل میں سوچا اس کا حق بنتا ہے کسی بھی اونچائی پہ چڑھ کر چھلانگ لگا دے۔ کوئی رشتے دار یہاں رہتا نہیں۔ محلے میں کہیں آنا جانا نہیں۔ عجیب زندگی ہے نا لیکن پھر بھی سب جیتے ہیں مگر بہت سارے لوگ کمزور ہوتے ہیں
میں نے اسے اکثر شام میں اپنے شوہر کے ساتھ واک کرتے ہوئے دیکھا بظاہر تو سب ٹھیک لگتا تھا پر اس لڑکی کی جسمانی ساخت بھی عجیب ہوتی جارہی تھی۔ “ جم جوائن کرلو” “میں ڈرائیو نہیں کرتی”
“لائسنس لو” “وہ ہسبینڈ کہتے ہیں کہ آدھے پیسے تم ڈالو اور آدھے میں ڈالتا ہوں ٹیسٹ کیلئے۔ ڈرائیونگ سیکھنے سے پہلے میں جاب جوائن کروں گی اور اس کے بعد ڈرائیونگ سیکھوں گی” اس الٹی گنگا پہ مزید حیران ہوئے بغیر میرے ذہن میں ایک اور خیال آیا” جاب پہ کیسے جاو¿گی” “ ہسبینڈ کہتے ہیں وہاں دوستی کرلینا اور پھر دوستوں کے ساتھ آیا جایا کرنا” ہسبینڈ کی اس عقلمندی، خیر سگالی اور کفایت شعاری پر میں نے دل سے بھرپور داد دی مگر اس بیچاری کو صرف اتنا بول سکی” ہسبینڈ سے کہنا رہتی تو میں سارا دن آپ کے گھر ہوں اور فیس کے پیسے آدھے میں دوں؟ حیرت ہے”
“میں آپ سے بات کرلیا کروں” میرے ڈھیر پرخلوص مشوروں کے بعد اٹھتے ہوئے اس نے پھر اجازت مانگی۔ پتہ نہیں مجھ جیسی بیزار ہستی سے بات کرنے سے اسےکیا ملنا تھا لیکن اس کی آنکھوں اور لہجے کی التجا میں عجیب سی بے بسی تھی مطلب وہ جو ڈھیر دوستوں کا ہے وہ سب کیا بس انسانوں کا ریوڑ ہے؟
ہمارا المیہ کہ ہم دوستوں سے دل کی بات اصل حالت میں نہیں کہہ پاتے نہ ہی کسی اور سے۔ ڈرتے ہیں دوسرے ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے۔ سیکریٹس لیک ہوجائیں گے۔ بقول غالب
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
سچے ، پرخلوص دوست زندگی کا بہترین اثاثہ ہیں جو کہیں آپ کے ناصح نہ بنیں بلکہ جہاں کہیں ضرورت ہو وہاں اس ضرورت کو ممکن بنا دیں بنا کچھ سوچے سمجھے۔۔
میں نے کئی بار بھولنے کے بعد بالخر اسے کال کر ہی لی ویسے بھی بقول میری دوست کے بڑا ثواب ملے گا۔ اور تو کچھ ملتا نظر آنہیں رہا ثواب سہی۔ “ میں بہت بیمار رہی۔ ایکزائیٹی اور ڈپریشن کی دوائی کھاتی رہی۔ نیگییٹیو خیال بہت زیادہ ہوگئے ہیں باہر بھی نہیں نکل سکی کتنے دن۔ آپ سے ملنے کا سوچتی تھی پھر سوچا آپ جاب پہ ہوں گی بزی ہوں گی” اور پھر وہ بولتی گئی
ایک ایسی عورت جس کی جھولی میں مرد ذمے داریوں اور رویوں کی بدصورتی کے علاوہ کچھ نہیں ڈال سکتا اس کی یہ حالت بہت عام ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ عورت کو خود سمجھ نہیں آتی ہو کیا رہا ہے وہ معاشرتی تحفظات میں اپنے آپکو بھول چکی ہوتی ہے۔ ہمارا المیہ ہے ہمیں ایسا منظم ماحول دیا گیا جہاں عورت کو صرف مرد کے پیچھے چلنا سکھایا گیا اپنی خوشیوں کے حصول میں ، اپنے دکھوں کے مداوے کیلئے۔ مرد کو عورت کے ساتھ چلتے دیکھ لیں تو دونوں کی خوشیاں مشکل کر دی جاتی ہیں۔
وفا کے نام پہ عورت کو پاگل پن کی نہج تک پہنچا دیا جاتا ہے دوسری طرف مرد عورت کی اس وفا کا اچار بھی نہیں ڈالتا۔
میں اس سے بات کیا کروں گی، اپنی پوری کوشش کروں گی کہ وہ ٹھیک رہے یا ٹھیک ہوجائے۔ کیونکہ اس کا ذہن میری کسی بھی بات کو اتنی آسانی سے قبول نہیں کر پائے گا۔ یہ رویے ، یہ سوچیں ڈویلیپ ہی ایسی ہوئی ہیں کہ بدلنا بہت مشکل ہے لیکن پھر بھی اس امید پہ کہ
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
252