صبر بمقابلہ تکبر 135

کیا عدلیہ اور افواج کو ایک پیج پر ہونا چاہئے؟

کیا پاکستان واقعی ایک آزاد اور جمہوری ملک ہے، بعض اوقات مجھے اپنے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملتا اور ایسے لگتا ہے کہ نہ تو پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور نہ ہی وہاں کوئی جمہوریت وغیرہ نام کی کوئی شے ہے، وہاں دنیا کی سب سے بڑی آمریت سب سے بڑی ہٹلر شاہی ہے، پاکستان میں ہی دنیا کا سب سے بڑے جنگل کا قانون رائج ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس جس کے مظاہر جس کے نمونے آج پوری دنیا دیکھ کر محظوظ ہو رہی ہے۔ وہ کون سی لاقانونیت ہے جو اس ملک میں خود حکومتی سطح پر نہیں کی گئی۔ عدالتوں اور قانون کے ساتھ خود قانون کی ماں کو پارلیمنٹ کو کس طرح سے اس ملک میں تماشا بنایا گیا اس ملک پر حقیقی معنوں میں گاڈ فادر اور سسیلین مافیاکا راج ہے، میں دونوں ہاتھ اٹھا کر سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس مسٹر کھوسہ کی دور اندیشی ان کی بصیرت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے بہت پہلے ہی اس خطرے کو بھانپ لیا تھا تب ہی انہوں نے اپنے ایک عدالتی ریمارکس میں گاڈ فادر اور سسیلین مافیا کے ناموں کو استعمال کیا تھا جو اس وقت عملاً پوری قوم کے سامنے آگئے ہیں۔
آج پاکستان کا کون سا ایسا دارہ ہے جو گاڈ فادر یا پھر سسیلین مافیا کی بلیک میلنگ سے بچا ہوا ہے، ہر ادارہ ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا ہے اور ان کے اشاروں کا محتاج ہے جوکوئی اپنی خود مختاری یا پھر آئین کی پاسداری کا مظاہرہ کرتا ہے اس کی آڈیو مارکیٹ میں پھینک دی جاتی ہے، ان کے بکاﺅ مال میڈیا سہولت کاری کا کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے وزراءطوطے کی طرح سے ٹائیں ٹائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں یہ ہی سارا کھیل تماشا پچھلے سوا سال سے چل رہا ہے جس سے یقین جانیے پوری دنیا محظوظ ہو رہی ہے اور پاکستانی سیاست پر تھو تھو کررہی ہے۔ ساری دنیا کو پاکستانی عوام کی کمزوری اور لاچاری پر افسوس ہے کہ انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، پوری کی پوری حکومتی مشینری ہی ان مافیاز کے کنٹرول میں ہے کہ کس طرح سے سپریم کورٹ کے الیکشن کروانے سے متعلق جاری کردہ فیصلے کے آگے یہ مافیا سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا ہے، نہ تو وہ خود بحیثیت حکومت اس آرڈر پر عمل درآمد کررہی ہے اور نہ ہی حکومتی مشینری، بیوروکریسی کو ایسا کرنے کی اجازت دے رہی ہے، یعنی وہ پوری طرح سے ملک کے سب سے بڑی عدالت کو قدموں کی ٹھوکر بنائے ہوئے انصاف اور قانون کا مذاق اٹھا رہی ہے اور اب اپنے بلیک میلنگ کے طریقہ کار کے مطابق سپریم کورٹ کے معزز چیف جسٹس کی خوشدامن کی آڈیو لیک کروا دی گئی اور اسے ہتھیار بنا کر اب ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج کو بلیک میل کرکے اسے اپنے انگلیوں کے اشارے پر چلوانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پاکستان پر یہ ساری لعنتیں اور عذاب جمہوری نظام کے طفیل آرہی ہے، میں خدانخواستہ کوئی جمہوریت کا دشمن نہیں، مگر افسوس کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ سارے کا سارا جمہوری نظام اور اس کی بھاگ دوڑ آمروں کے نرسری میں پل کر بڑھنے والوں کے ہاتھوں میں آچکی ہے اس لئے وہ اس جمہوری نظام کو بھی اپنے آمرانہ طور طریقوں سے چلوانے کی کوشش کررہے ہیں جس کا سب سے بڑا اور زندہ ثبوت ملک میں انتخابات کا نہ کروانا ہے۔ ملکی عوام کو ان کے اظہار آزادی رائے سے روکنا ہے اس طرح سے تو کسی بدترین آمریت میں بھی نہیں ہوتا، جس طرح سے اس موجودہ حکومت میں کیا جارہا ہے، ملک پر اس وقت گاڈ فادر اور سسیلین مافیا کی حکمرانی ہے اس میں ابھی کسی کو بھی شک و شبہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اب یہ ذمہ داری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام تر مخالفتوں اور بلیک میلنگ کو خاطر میں لائے بغیر آئین اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے جاری کردہ فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کی صورت میں جو لوگ بھی توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں ان سب کے خلاف کارروائی کرنے کے باضابطہ احکامات جاری کرکے انصاف اور آئین کا سربلند کرے اور آرمی چیف کو چاہئے کہ وہ ملک کی سلامتی اور آئین کو پامالی سے بچانے کے لئے سپریم کورٹ کی پشت پر کھڑے ہونے کا مظاہرہ کرے کیونکہ اسی میں پاکستان کی سلامتی مضمر ہے اور پاکستان کی سلامتی ہی پاک افواج کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں