آج ملک جس ڈگر پر چل پڑا ہے اس پر دل خون کے آنسو رونے کو چاہتا ہے۔ پورا ملک غربت اور جہالت کے بعد حقیقی تاریکی میں بھی ڈوب گیا ہے۔ ایک غیر یقینی کیفیت سے پورا ملک اس وقت دوچار ہے، کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ ملک کس جانب جا رہا ہے۔ اس کا مستقبل کیا ہونے جا رہا ہے، اس کا کوئی مستقبل ہے بھی کہ نہیں۔۔۔؟ اس ملک میں کون سا نظام چل رہا ہے؟ اس ملک کا کوئی وارث ہے بھی کہ نہیں، جمہوریت ہے وہ بھی جمہور کے بغیر۔ ملک کے جمہور کی سمت کچھ اور ہے اور جمہوریت کی کچھ اور۔۔۔؟ پہلی بار جسم کہیں اور جارہا ہے اور اس کا سایہ کہیں اور۔۔۔؟ کوئی ایک بھی ایک فیصلہ جو پارلیمنٹ سے آئے، عدالت سے آئے یا پھر کہیں اور سے۔۔۔ وہ اپنے عوام کے امنگوں کے عین مطابق نہیں آتا ہے بلکہ انہیں دیوار سے لگانے، انہیں مزید برباد سے برباد کرنے کے لئے ہی آتا ہے، ایسے لگ رہا ہے کہ فیصلہ کرنے والے تمام ادارے ملک اور اس میں بسنے والوں کے دشمن ہیں، اس لئے تمام تر فیصلے ملکی عوام کے خلاف اور خود ملک کو مزید کمزور سے کمزور کرنے سے متعلق ہوتے ہیں جس کی تازہ ترین مثال پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی ہے، یہ فیصلہ، فیصلہ نہیں بلکہ توپ کا گولہ ہے جو پنجاب کے عوام پر گرایا گیا ہے تاکہ وہ مزید اپنے حقیقی آزادی کے لئے تڑپنے اور مچلنے کے قابل نہ ہو، ملکی عہدیداروں نے سربراہوں نے چاہے وہ وردی والے ہوں یا پھر سوٹ بوٹ والے ہو، سب کے سب نے وائس رائے والی صورتحال اختیار کرلی ہے، سب کے سب گملے کے پودے دکھائی دے رہے ہیں، کسی ایک کی بھی جڑیں ملک میں نہیں ہیں، ان کے کرتوتوں اور باتوں سے تو ایسے ہی لگتا ہے کہ وہ اپنا کام کرنے کے بعد اپنے اصل ملکوں کی جانب روانہ ہو جائیں گے، ورنہ اسی ملک میں رہنے والے نہ تو اپنے عوام سے ایسا کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے ملک سے۔۔۔ کیونکہ جس کشتی میں آپ سفر کررہے ہیں اس میں چھید کرنے سے تو آپ بھی دوسروں کے ساتھ ڈوب جائیں گے لیکن اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ میں نے تو کسی اور لانچ یا بحری جہاز میں کھود کر چلے جانا ہے تو پھر لانچ میں چھید کرنے یعنی اسے ڈبونے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گے۔ یہ ہی حال ملک پر قابض یا مسلط ٹولہ اس وقت ملک کے ساتھ کررہا ہے اور اس صورتحال سے ملک کو نکوالنے کے لئے ملکی عوام کے پاس سوائے تنگ آمد اور بجنگ آمد کے اور کوئی آپشن نہیں۔ جس طرح سے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے کے مصداق ملکی عوام کو خود پر مسلط اس لعنت سے چھٹکارا پانے کے لئے سری لنکا اور ترکی کے عوام کی طرح سے ایک ساتھ سڑکوں پر نکلنا ہوگا اور اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو خاک و خاشاک کی طرح سے بہا کر لے جانا ہوگا۔ اس ایک طریقہ کار اس ایک انقلابی اقدام کے بغیر اس 75 سالہ پرانی بیماری سے چھٹکارا نہیں پایا جا سکے گا جو اس ملک کو دیمک کی طرح سے چاٹ رہا ہے اس ملک کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے۔۔۔ وہی صورتحال خود اس ملک کے اپنوں سے پیدا کرلی ہے، بلاول زرداری کو ملک کا وزیر اعظم بنوانے کے لئے ہی محسن نقوی کو پنجاب کا نگراں وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے جو وہاں دھاندلی والے الیکشن کروا کر پنجاب میں پی پی پی کو زندہ کرکے مسلم لیگ نون کے ساتھ اس کی اتحادی بنوا کر پنجاب میں حکومت بنوانے کے بعد مرکز میں پھر پی پی پی سے مسلم لیگ ن کا اشتراک کراکے بلاول زرداری کو وزیر اعظم بنوانا ہے۔ یہ اسکرپٹ لکھا گیا ہے اور اس پر عمل درآمد محسن نقوی کے متنازعہ تقرری سے کردی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک پر قابض مافیا کا یہ زہریلا پلان کامیاب ہوتا ہے یا پھر ملک کے 22 کروڑ عوام اپنے حقیقی آزادی کی جنگ جیت کر قبضہ مافیا سے ملک کو آزاد کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں، یہ ایک فیصلہ کن الیکشن ہونے جارہا ہے جس میں پاکستان اور اس کے عوام کے مخالف ساری قوتیں ایک طرف اور ملک کے 22 کروڑ عوام ایک طرف ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کشمکش میں سچ کی جیت ہوتی ہے یا پھر ریا کاری، مکاری اور ملک دشمنوں، میر جعفروں اور میر صادقوں کی؟
یاد رہے اس انتخابی نتائج میں ہی پاکستان کی سلامتی اس کی حقیقی آزادی و خودمختاری مضمر ہے۔
