نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 143

کیا کپتان کا جہاز ڈوبنے کو ہے۔۔۔؟

بڑی ہی پرانی کہاوت ہے کہ جب سمندری جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو اس کی خبر اس جہاز میں موجود چوہوں کو پہلے ہی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ چوہے اپنی جان بچانے کے لئے پہلے ہی جہاز سے سمندر میں چھلانگیں لگانا شروع کر دیتے ہیں یعنی سمندری جہاز سے جس طرح سے چوہوں کا چھلانگیں لگانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ جہاز ڈوبنے جا رہا ہے بالکل اسی طرح سے عمران خان کے اتحادیوں کا ایک ایک کرکے اپنے پینترے بدلنا اور حکومت سے الگ ہونے کے لئے پرتولنے کی کوشش کرنا بھی اس امر پر دلالت کررہا ہے کہ عمران خان کی حکومت اب چند روزہ رہ گئی ہے اس لئے وہ اتحادی حکومت کے خاتمے سے پہلے ہی دوسری کسی پکی ہوئی فصل کی تلاش میں نکلنے کی کوشش کررہے ہیں یہ ہی پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کا وطیرہ اور اس کا وہ حسن ہے جس سے جمہوریت سے مالا مال مغربی ممالک اور خاص طور سے جمہوریت کو جنم دینے والا یونان بھی محروم ہے۔
کس طرح سے مصیبت پڑتے ہی آنکھیں پھیرنا، وعدے خلافی کرنا، یہ ہی پاکستان کے منجھے ہوئے سیاستدانوں کی شان و آن ہے۔ اب یہ تو کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ عمران خان کی حکومت گرنے جارہی ہے، بظاہر اس طرح کے آثار ضرور پیدا کردیئے گئے ہیں کہ جس سے یہ کہنا آسان ہو گیا ہے کہ عمران خان بطور وزیر اعظم چند روز کا مہمان ہے لیکن سوچنے اور غور کرنے والی بات تو یہ ہے کہ آخر یہ چند دنوں میں عمران خان اور ان کی حکومت نے ایسا کیا کردیا کہ ایک دم سے ان کے خلاف ایک سیاسی بحران کھڑا کردیا گیا جو باتیں اور جو دھمکیاں وہ اب دے رہے ہیں وہ تو روز اوّل سے ہی کہتے چلے آرہے ہیں، مولانا کو ڈیزل تو وہ پہلے بھی کہتے رہے ہیں آخر اب ایسا کیا ہوا کہ ساری سیاسی پارٹیاں ایک دم سے ان کے خلاف محترک ہو گئیں ہیں یا کردی گئی ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ جسیے چابی کے ان کھلونوں میں کسی نے چابی بھر دی ہو وہ بھی اس طرح کی کہ بستر مرگ پر پڑے تمام کے تمام سیاستدان ایک بستروں سے اٹھ کر اقتدار کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔ حالات اور واقعات کچھ اسی طرح کے اشارے دے رہے ہیں، ویسے بھی پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں نہ تو کوئی وزیر اعظم عدم اعتماد کے تحریکوں کی وجہ سے گھر جاتا ہے اور نہ ہی کوئی جلسہ جلوس یا پھر ووٹوں کے ذریعے الیکشن جیت کر مسند اقتدار پر پہنچتا ہے بظاہر ایسے نظر ضرور آتا ہے مگر وہ نظروں کا دھوکہ ہوتا ہے اس لئے کہ یہ تمام تر فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں جس کے بعد انہیں ان جمہوری پراسسز سے گزارا جاتا ہے جس طرح سے اب یہ تحریک عدم اعتماد کی ایک جمہوری مشق کروائی جارہی ہے۔
کسی بھی اتحادی یا دوسرے کسی نہ عمران خان کو اعتماد کا ووٹ نہیں دینا ہے چاہے اس کام کے وہ کسی سے کوئی معاوضہ لے یا نہ لے یہ اس کا اپنا ضمیر ہے مگر یہ طے ہے کہ کسی نے عمران خان پر اعتماد کا ووٹ دینے کی غلطی نہیں کرنا ہے یہ ہی پاکستان کی کنٹرولڈ سیاست اور جمہوریت ہے۔
پاکستان کی آزاد میڈیا کو بھی اس کا ادراک ہے مگر وہ بھی چونکہ اس کھیل کا حصہ ہے اس لئے ملک کی سیدھی سادی عوام کو گمراہ کرنا یا سچائی سے دور رکھنا ہی ان کا کمال صحافت ہے لیکن اس کے باوجود میں یہ بار بار کہہ رہا ہوں کہ ضروری نہیں کہ جس طرح کی سازش کی جارہی ہے وہ کامیاب بھی ہو جائے یعںص اوقات بن بادلوں کے بھی برسات ہو جاتی ہے اور اس ساری صورتحال میں بھی ایسا ہونے کا پورا پورا امکان ہے مگر یہ اچھا ہوا کہ عمران خان کو اتحادیوں اور دوستوں کی شکل میں موجود دشمنوں کی شناخت ہو گئی جو بھی ہو پاکستان کا وقار مجروح نہ ہو اور نہ ہی اس کی خودمختاری پر کوئی آنچ آئے، یہ ہی سب کی دعا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں