عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 243

کیا ہونے جارہا ہے؟

ایسے لگ رہا ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی رحمة اللہ سے مملکت خداداد پاکستان سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے لئے ہی بنایا تھا اس لئے کہ آج اس غریب اور مقروض ملک میں جو سہولتیں حاصل ہے تو وہ صرف سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو ہی حاصل ہے یہ ہی اس ملک کے حکمراں بھی ہیں اور یہ ہی اس ملک کے عوام بھی ہیں۔ حاکم بن کر یہ تمام تر قانون سازیاں اور فیصلے خود اپنے ہی فلاح و بہبود کے لئے کرتے ہیں یہ ایک الگ بات ہے کہ انتخابات کے موسم میں یہ ایندھن اور بیٹری کا کام ملک کے پسی ہوئی عوام سے لیتے ہیں یہ ہی اس ملک کا المیہ ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی آئے اور کوئی بھی اس ملک کا حاکم بن کر آ جائے وہ اس سرکل یعنی اس دائرے سے باہر نکل کر نہ کچھ کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ کچھ سوچ سکتا ہے؟
اس وقت ملک معاشی بحران کا شکار ہے، معیشت کے ہاتھوں وہ غیروں اور دشمنوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہا ہے، اپنے قانون سازی کا اختیار تک دشمنوں کو دے دیا ہے تاکہ وہ ان کی مالی مدد کرے حالانکہ یہ کوئی اتنا مشکل اور نا ممکن کام نہیں یا علاج یا حل خود ملک کے اپنے پاس نہیں ان ہی لوگوں کے پاس اس کا حل موجود ہے جو سیاستدان ہو کر یا پھر بیوروکریٹس ہو کر اس ملک پر بلاشرکت غیرے پچھلے 74 برسوں سے حکومت کرکے چلے آرہے ہیں جتنا قرضہ اس وقت پاکستان پر ہے اس کا 50 فیصد سے زیادہ ان سیاستدانوں کے پاس اور بیوروکریٹس کے پاس موجود ہے جو چٹکی بجا کر یہ قرضہ ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کو دے سکتے ہیں جس کا علم خود حکمرانوں کے علاوہ اس ملک پر پس پردہ حکمرانی کرنے والوں کو ہے لیکن معلوم نہیں کہ ملک پر آئی ہوئی اس مشکل گھڑی میں وہ بھی ملک کی خودمختاری کا تماشہ دیکھ رہے ہیں؟ انہیں معلوم ہے کہ آئی ایم ایف کس طرح سے قانون سازی کرکے پاکستان کو تباہی کی جانب دھکیل رہا ہے لیکن اس کے باوجود وہ
لوگ صرف تماشہ دیکھ رہے ہیں یعنی جس شاخ پر بیٹھے ہیں وہ اسی کو کٹتا ہوا دیکھ رہے ہیں لیکن ان کا کیا بگڑے گا؟ کچھ بھی تو نہیں ان کے پاس دوسرے ملکوں کی نیشنلٹی ہیں، جائیدادیں اور کاروبار دوسرے ممالک میں ہیں اور بچے بھی وہاں زیر تعلیم ہیں ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ ملک کا کیا حال ہوتا ہے اس لئے کہ وہ اس ملک سے مخلص ہی نہیں۔
وہ وائسرائے کی طرح سے نقل تو کرتے ہیں لیکن وہ ان کی طرح سے غیر ملک سے نہیں تو کم از کم اپنے منصب سے تو مخلص تھے جو جتنا عرصہ ہندوستان کے ترقیاتی کاموں پر کچھ نہ کچھ خرچ کیا، ریلوے کا نظام وجود میں لائے، جہاز رانی کا نظام بہتر کیا اور پولیس اور کچہریوں پر خاص توجہ دی وہ اپنے کام سے مخلص تھے مگر یہ دیسی وائس رائے یعنی سیاستدان اور بیوروکریٹس صرف اور صرف اس ملک کو لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں، یہ ڈاکو اور لٹیرے بن کر اس ملک پر حکمرانی کررہے ہیں مگر افسوس کے ملک پر پس پردہ حکمرانی کرنے والی ان قووں کو بھی علم ہے جو اس ملک کے سلامتی کے ضامن ہیں ان کی خاموشی معنی خیز ہے خاص طور سے آئی ایم ایف کے گورنر اسٹیٹ بینک کی حرکتوں پر۔ انہیں اس نازک ترین معاملے پر نوٹس لینا چاہئے اور مل کا خزانہ لوٹنے والے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کرنا چاہئے چاہے انہیں اس کارخیر کے لئے کسی بھی حد تک کیوں نہ جانا پڑے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں