کسی سے بات کیجئے! 366

”گھسی پٹی محبت“ دوسرا تجزیہ

اپنے لئے خوابوں کے آسمان کے ساتھ ساتھ زمین پر بسنے والے گھر بھی خود ہی بنانے پڑتے ہیں۔ اب کوئی شہزادہ کسی بھی گلی محلے میں پلنے والی لڑکی کیلئے آسمان سے تارے توڑ کے نہیں لاتا۔ میں نے زندگی میں بہت پہلے سے صرف ایک ہی بات سیکھی تھی اور سکول کے لیول سے ہی اپنے اردگرد سب کو نہ صرف سمجھاتی تھی بلکہ ہر طرح مدد بھی کرتی تھی اور وہ تھی تعلیم اور کیرئئر!!!! ہر لڑکی کی زندگی میں ایک مکمل کانسیپٹ ہونا چاہئے کہ اسے اپنا کیرئئر بنانا ہے ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے اچھے اور مالدار لڑکےکے رشتہ لانے کا اتنظار نہیں کرنا۔ اس وقت بھی میرے پاس اگر کوئی بھی لڑکی کسی بھی طرح کی مدد کیلئے آتی ہے میری پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس کی ہر قسم کی فضولیات سے جان چھڑا کر اس کا فوکس تعلیم اور کیرئئر پہ دلواو¿ں اور ہر ممکن کوشش کرکے اسے کسی بھی طرح کسی کام میں یا ایجوکیشنل سرگرمیوں میں انوالو کروں ، کسی جاب یا کیرئر کو جوائن کرنے کیلئے اسے مکمل مورل، ممکنہ فائینیشل سپورٹ دوں اور ہر قدم پر اسے چیک کرنے کی کوشش بھی کرتی ہوں اور اکثر نتائج اچھے آجاتے ہیں کم ازکم کوشش ضرور شروع ہوجاتی ہے۔ اور اصل میں کوشش ہی درکار ہے۔ “گھسی پٹی محبت “ کی آخری قسط میں صامعہ کی اپنے کام سے محبت اور لگن کو جس طرح زندگی کے تمام برے تجربوں کے بعد سامنے لایا گیا بہت ڈھارس ہوئی کہ اتنی ناکامیوں کے باوجود وہ زندگی کے اچھے گمان ، مثبت سوچ اور محنت سے پیچھے نہیں ہٹی۔ اس نے کسی کے جھوٹے عشق میں خودکشی یا جوگ لینے جیسی انتہائی مایوس کن حرکتیں نہیں کیں۔ وہ زندہ بھی رہی اور اپنی شان ، اپنے اصولوں اور اپنی ہمت کے ساتھ سر اٹھا کے محنت کرتی رہی۔
مرد بھی تو تین /چار شادیاں کرتے ہیں ان کے کردار پہ حرف تک نہیں آتا۔ میں ایک ایسے شخص کو جانتی ہوں جس نے انتہائی کم وقفے میں یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں۔ دوبیویاں چھوڑ کے گئیں مگر اس کی صحت پہ تو کوئی فرق نہیں پڑا تو پھر ہمارا معاشرہ عورت کا جینا کیوں حرام کر دیتا ہے اسے بنا کئے دوسروں کے غلطیوں کی پاداش میں ساری عمر طعنے سہنے پڑتے ہیں۔ اور کچھ نہیں بدل سکتا تو کم ازکم سوچ ہی بدلنی چاہئے۔ جلن ، حسد اور بے سر پیر کے سوپس کی بجائے ویمن امپاورمنٹ کے حوالے سے لوگوں کو مثبت مواد دکھانا بہت ضروری ہے۔
یہ تو طے ہے کہ زندگی ، ہر ایک کیلئے کامیابیوں اور مسرتوں سے بھرا آسمان وا کئے بہت کم نظر آتی ہے بلکہ ہر کوئی اپنی جگہ ایک مستقل اور تھکا دینے والی جنگ میں پھنسا ہوا نظر آتا ہے۔یہ جنگ خود اپنے آپ سے بھی ہوتی ہے، اردگرد لوگوں سے بھی ہوسکتی ہے اور معاشرے سے بھی۔ ہم خود سے کی جانے والی سرد جنگ میں جب سرخرو اور فاتح بن کے خود سے نکلتے تو بہت پاس رہنے والے بےحد اپنے رشتے ہی ہمارے اندر چلنے والی کشمکش اور توڑ پھوڑ کے ساتھ ہونے والے واقعات کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔
اور ہم جو اپنے اصولوں کی جنگ میں خود کو بھی کہیں بہت پیچھے چھوڑ آتے ہیں لیکن دنیا صرف وہی دیکھ پاتی ہے جو دیکھنا چاہتی ہے۔ “گھسی پٹی محبت “میں ہر بار صامعہ نے وہ کیا جو اسے اس صورتحال میں ٹھیک لگا۔اپنی طرف سے اس نے کچھ بھی غلط نہیں کیا۔ اصولوں کی پاسداری اپنے دل کے سکون کیلئے نہ صرف ضروری ہے بلکہ اپنی بقا اور ہمیشگی کیلئے کسی چیز کا آپ میں ہونا آپ کو دوسروں سے سراسر مختلف کردیتا ہے اس مختلف ہونے میں کبھی لفظ ملیں نہ ملیں مگر عملی شکل ہر جگہ مل جاتی ہے
ویسے بھی زندگی میں کونسا ہر کوئی ہمیں پرفیکٹ ہی ملتا ہے جو نتیجہ پرفیکٹ آنے کی امید رکھی جائے۔ امپرفیکشن اور یہ ادھورا پن ہی زندگی ہے اصل میں۔ اور اپنی تمام کوششوں کے باوجود صامعہ اپنا گھر نہیں بسا سکی۔ ہمارے معاشرے میں عورت کا گھر نہ بسا سکنا اس کی سب سے بڑی ناکامی تصور کی جاتی ہے لیکن کوئی بھی یہ نئیں سوچتا کہ گھر بسانے کی ذمے داری مرد پہ بھی اتنی ہی عائد ہوتی ہے جتنی کہ ایک عورت پہ ! عورت کو صرف شادی کیلئے تیار کیا جاتا ہے اور مرد کو کمائی کیلئے۔چونکہ دونوں کو ہی ہر طرح کے متوقع حالات سے آگہی مہیا نہیں کی جاتی سو اپنی اپنی محدود عائد کردہ ذمے داریوں میں بھی دونوں ہی پورا نہیں اتر پاتے۔
زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ محض ایکسائٹمنٹ، وقتی توجہ یا ضرورت اور کسی خاص وجہ کے تحت کیا جائے تو نتائج سوائے بے چینی کے علاوہ اور کسی صورت نظر نہیں آتے۔ اکثریت تو اس بے چینی کی وجہ سمجھ ہی نہیں پاتی۔ صامعہ کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ اس کے ہر شوہر نے شادی اس سے محبت میں نہیں کی تھی بلکہ وقتی جذباتیت یا ضرورت کے ٹحت کی تھی۔ سبزی لینے کیلئے لوگ ہمیشہ اپنے اعتماد والی جگہ پر جاتے ہیں پھر شادی کرتے ہوئے ایڈوینچر کیوں کرتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ، ایک دوسرے کی عادتوں ، رویوں اور ضرورتوں کو سمجھ کے اگر کسی کو زندگی میں شامل کیا جائے تو نتائج یقیناً مختلف ہوں کیا ہی اچھا ہو کہ پھر محبت بھی ہو اور ساتھ نبھانے کا پیمان بھی محبت کو آج کے دور میں شادی سے یکسر الگ کر دیا گیاہے ایسے لگتا ہے ایک ہی ٹرین کے دو ڈبے ہیں بس ایک دوسرے پہ بند لیکن کوشش کی جائے تو کھل بھی سکتے ہیں مگر تط تک بہت دیرہوچکی ہوتی ہے اور صامعہ کا آخری پڑاو¿ ایسا ہی تھا جہاں مرد کو یہی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسے محبت ہوئی بھی ہے کہ نہیں کہ خالی خولی کرش۔۔۔ اور خلیل الرحمٰن قمر کے فرسودہ لقب “دو ٹکے کی عورت “کے بعد فصیح باری نے “ بناسپتی گھی جیسے مرد” کا لقب پیش عورتوں کے طبقے کا بدلہ بھی لے لیا۔ کیساشدید تھپڑ ہے یہ لقب بس محسوس کرنے کی بات ہے۔ جدھر دیکھتے ہیں ادھر ہی بناسپتی گھی کی طرح پگھلنے والے یہ مرد عورت سے غیر مشروط وفا مانگتے ہیں جس کے نام تک سے خود نواقف ہیں۔
ڈرامے کاہر پہلو مثبت اور تعمیری سوچ لئے ہوئے تھا۔ ایسا لگتا تھا یہ کردار کوئی بلکہ ہمارے اندر بسنے والے مختلف لوگ ہیں جو جینا چاہتے ہیں مگر بار بار گرتے ہیں اور سنبھل کے دوبارہ چلنے کیلیے پہلے سے بھی زیادہ محنت کرنے کی ٹھان کے آتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں