آج جو حکمران کراچی کو الگ انتظامی یونٹ کا نام بھی سننا گوارہ نہیں کرتے، یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ”جئے سندھ“ کا نعرہ لگانے والے ان کے سائیں جی ایم سید تو سندھ کو ایک خودمختار ملک بنانے کے لئے بین الاقوامی ادارے کے پاس جانے کے منصوبے بنا رہے تھے اور انہوں نے علی احمد تالپور کو نئی مملکت کے صدر کے طور پر نامزد بھی کردیا تھا۔ ایک تو سندھی لیڈروں کے دماغ میں یہ خناس بھرا ہوا ہے کہ ادھر وہ آزاد سندھ کا نعرہ لگائیں گے، ادھر ان کے نسلی رشتے دار (راجہ داہر کے حوالے سے) اس نئی مملکت کو فوراً تسلیم کرلے گا۔ اور بھٹو کے پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد اور بنگلہ دیش میں ہندوستانی مداخلت کے پیش نظر یہ کبھی بھارتی ٹینکوں پر بیٹھ کر آنے کی بات (دختر مشرق اور کشتہ خاوند بے نظیر بھٹو کی ایک تقریر) ادھر بھائی الطاف حسین کے دماغ میں یہ بھس کے وہ کراچی کو آزاد کراکر خود قائد تحریک سے قائد مملکت بن جائیں گے۔ اس سے سندھی لیڈروں میں ”مرسو مرسو سندھ نہ ڈیسو“ کا نعرہ پیدا کردیا اور پھر ان کے قومی شاعر شیخ ایاز ”سندھڑی کے سر کیر نہ ڈینڈھا“ کے پر جوش نعرے سے پورے سندھ میں مہاجرین کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی اور سندھی مہاجر تفریق میں اضافہ ہوگیا۔ بھٹو نے اندرون سندھ اس نفرت کو ہوا دی جس کے نتیجے میں اندرون سندھ سے ایک اور ہجرت کراچی کی طرف شروع ہو گئی اس کے ساتھ ساتھ اپنے شہر لاڑکانہ میں ایسے حالات پیدا کئے کہ وہاں کی شیخ برادری بھی کراچی منتقل ہوئی۔ یہ سلسلہ ان کے اغواءبرائے تاوان سے شروع ہوا مگر اصل مقصد یہ تھا کہ یہ بنیا ذہنیت کے تاجر کراچی جا کراپنا کاروبار شروع کریں گے کیونکہ بھٹو کے دماغ میں اہل کراچی کے لئے شروع سے ہی شبہات تھے۔ ایک یہ ہی ایسے سر پھرے ہیں جو اس پر وقت ڈال سکتے ہیں۔
دوسری طرف سندھ سے سندھیوں کو کراچی میں آباد کرنے کے منصوبے شروع ہوئے اور سینکڑوں جعلی گوٹھ بنائے گئے۔ اب صورت حال یہ نہیں کہ متروکہ سندھ میں مہاجروں کو حصہ نہیں ملا اور جو کچھ انہوں نے اپنی محنت مشقت سے بنایا تھا اسے بھی فساد، قتل و غارت گری کے ذریعہ تباہ کردیا۔ ادھر سندھی میڈیا نے مہاجروں کے خلاف جنہیں ”ماکڑ“ کا نام دیا گیا تھا، زہریلا پروپیگنڈہ شروع کردیا اور ”جئے سندھ“ کے غنڈوں کے ذریعہ اردو صحافیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تاکہ اردو اخبارات میں سندھی صحافی داخل ہو کر جانب دارانہ رپورٹنگ کریں۔ اس کی مثال یہ تھی کہ جب بھی سندھی مہاجر فسادات ہوئے اس میں قصور وار مہاجر ہی ٹھہرائے جاتے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی اپنی حماقتوں کا سلسلہ جاری تھا انہوں نے پٹھانوں سے پنگا لے لیا اور اپنی دانست میں کراچی کو پٹھانوں کا صفایا کرنا شروع کردیا۔ جی ایم سید نے ایک دفعہ بتایا کہ الطاف حسین جب ان کی سالگرہ میں شرکت کے لئے ”سن“ آئے تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ پہلے ہم پٹھانوں کو سندھ سے نکالیں گے، پھر پنجابیوں کو نکالیں گے، اس کے بعد سندھی اور مہاجر مل کر سندھ میں شراکت داری کریں گے۔ جی ایم سید نے کہا کہ میں نے الطاف حسین سے کہا کہ شیر کے منہ جب خون لگ جاتا ہے تو پھر وہ کسی کو نہیں چھوڑتا اور اگر تم نے کراچی کو ایک صوبہ بنا بھی لیا تو دیکھنا کورنگی، اورنگی سے لڑے گا۔ ناظم آباد، لالوکھیت سے لڑے کا اور ویسے بھی تم نے پاکستان نفرت کی بنیاد پر بنایا ہے تو یہاں اب محبت نہیں بلکہ نفرت ہی اُگے گی۔ ادھر بھٹو اپنی چالبازی سے کراچی میں لیاری کو ایم کیو ایم کے خلاف تیار کررہا تھا اور تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر گامزن تھا۔
اب موجودہ صورت حال میں کراچی کے نوجوانوں میں یہ احساس ابھر رہا ہے کہ سندھ پر قابض حکمران ایک منظم طریقے سے اردو بولنے والوں کا معاشی قتل کررہے ہیں جس کی ایک مثال حال ہی میں پبلک سروس کمیشن کی طرف سے 150 اسسٹنٹ کمشنرز میں ایک بھی اردو بولنے والا نہیں ہے اور نہ صرف یہ کہ سب کے سب وزیروں، با اثر وڈیروں کے نالائق نا اہل اور جاہل بیٹے، بھتیجے اور بھانچے ہیں بلکہ خود کمیشن کے ممبر سولنگی کا بیٹا، دو بیٹیاں اور ایک غالباً سسرالی عزیز شامل ہے۔ یہی نہیں بلکہ اب یہ عناصر اپنے نا اہل عزیزوں کو تمام ملازمتوں میں گھسا رہے ہیں اور حال ہی میں سندھ میں 40 ہزار ملازمتوں پر بھی سندھی افراد کا قبضہ ہو گا۔ دراصل پیپلزپارٹی نے اپنی ابتداءسے ہی ”ایک غیر سندھی کو ملازمت“ ایک سندھی کا قتل کا فارمولہ بتایا ہوا ہے اس کی مثال اس کے وزراءکے نامزد کردہ افراد کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہر ملازمت کے لئے پہلے تو سب سے پہلے سندھی کا نعرہ لگاتے تھے اب وہ سب سے پہلے اپنے عزیز و اقرباءکے لئے یہ کام کرتے ہیں اور اس طرح پیپلزپارٹی نے سندھ میں ایک ایسا ماحول بنا دیا اور ایک سوسائٹی تشکیل دیدی ہے جس کی زندگی اور موت ہی ان وڈیروں اور جاہل حکمرانوں سے وابستہ ہے یہ اگر یہ گئے تو ان کے بھی دن گئے لہذا پیپلزپارٹی کے اس اصول سے کہ کوئی بھی غیر سندھی پیپلزپارٹی کا وفادار نہیں ہوسکتا کہ تحت اس پارٹی میں اب سندھیوں کے علاوہ کسی کے لئے جگہ نہیں ہے اور یہ حکمران کراچی کے اکثریتی طبقے کا حق غصب کرکے اپنا ووٹ بینک بڑھانے پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ اب حالات جس نہج پر جا رہے ہیں اس کے باعث اگر کراچی میں ان متعصب حکمرانوں کے خلاف کوئی نئی تحریک شروع ہو جائے تو کوئی تعجب نہیں ہے۔
اب پیپلزپارٹی سندھ سے کراچی منگوائے گئے غنڈوں، ڈاکوﺅں اور لٹیروں کے ذریعہ قتل و غارتگری کا بازار گرم کرے گی اور یہ صورت حال پیدا ہوئی تو پھر مہاجروں کو بھی یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ عالمی قوتوں سے اپیل کریں کہ سندھ کی اردو بولنے والی آبادی کے تحفظ کے لئے امن فوج بھیجے اور موجودہ علاقائی صورت حال کے تحت پاکستان مخالف قوتیں مداخلت کرکے کراچی کو ایک علیحدہ زون بنانے میں مدد کرسکتی ہیں اور لندن میں بیٹھے ہوئے ”بھائی“ کو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے کے مصداق موقعہ مل جائے گا۔ اس وقت مجھے امریکی سفیر کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں کہ جب بھائی فرار ہو کر لندن چلے گئے تو ان سے اس پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے ہنس کر کہا کہ ”اب وہ گورنر جنرل بن کر واپس آئیں گے“۔
662