کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 357

اتحادی اور ان کے مطالبے

پاکستان میں سیاست اب نہ تو کوئی مشن رہا اور نہ ہی یہ قوموںکی رہنمائی کا کوئی ذریعہ اب تو سیاست نے باضابطہ ایک کاروبار کی صورت اختیار کرلی ہے ایک اس طرح کا کاروبار جو نفع اور نقصان کے بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اس کاروبار میں کاروباری اپنے فائدے کو ہی قوم اور ملک پر ترجیح دیتا ہے اس طرح کی صورتحال تو ہر وقت ہی قوم کو اپنے سیاست میں دیکھنے کو ملتی رہتی ہے مگر اتحادیوں کے بیساکھیوں پر کھڑی حکومتوں میں اس طرح کے مظاہر با آسانی دیکھنے کو مل جاتے ہیں ان دنوں پاکستان کی سیاست میں اتحادیوں کا بیوپار کھل کر سامنے آگیا ہے ہر اتحادی اپنے وزن اور قد سے بڑھ کر حکومت کے قد اور وزن کے حساب سے اپنا دام لگا رہا ہے۔ اگر حکومت ان کے مطالبے پورے نہیں کرتی یا پھر وہ ٹال مٹول یا لاڑا لپے سے کام لیتی ہے تو یہ اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی دیتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ ان کی علیحدگی ان کی جدائی نہ تو حکومت کو گوارہ ہو گی اور نہ ہی حکومت کے پس پردہ سرگرم قوتوں کو یہ اچھا لگے گا اس لئے ان کی ہر ممکن یہ کوشش ہو گی کہ روٹھ کر جانے والوں کو فوری طور پر راضی کرکے روکا جائے اس لئے کہ اس وقت ملک نہ تو حکومتوں کے بدلنے اور نہ ہی کسی اور طرح کے حکومت کے قیام کا متحمل ہے اس لئے کہ اس وقت پوری دنیا میں ایک غیر یقینی کیفیت طاری ہے جنوبی ایشیا جنگ کے دھانے پر پہنچ چکا ہے۔ چین، بھارت اور نیپال عملاً جنگ کی حالت میں ہیں جب کہ امریکا اور چین کے مابین، سرد جنگ چل رہی حی اسی کے ساتھ کرونا وائرس نے بھی دنیا کے 180 ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ 70 لاکھ سے زائد افراد کا کرونا ٹیسٹ مثبت آچکا ہے جب کہ دنیا بھر میں 4 لاکھ 72 ہزار 313 افراد کرونا کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں اس طرح کی صورتحال سے ان دنوں دنیا دوچار ہے اور ہمارے ہاں سیاستدان اس وقت بھی جوڑ تور میں لگے ہوئے ہیں، حکومت پر آئی اس مشکل ترین صورتحال میں حکومت چھوڑنے کی دھمکی دے کر عمران خان کو ایک طرح سے بلیک میل کرکے ان سے اپنے ہر طرح کے مطالبات منوانا چاہتے ہیں یہ اتحادی پہلے بھی یہ ہتھکنڈے استعمال کر چکے ہیں لیکن اس وقت صورتحال اس طرح کی نہیں تھی لیکن اب اتحادیوں کا حکومت کو ٹف ٹائم دینا اندرونی سے زیادہ بیرونی معاملہ نظر آرہا ہے اس لئے کہ بھارتی حکومت نے پہلے ہی اپنے ایجنسی ”را“ کو پاکستانی حکومت کو غیر مستحکم اور عمران خان کی حکومت کو گرانے کا خاص طور سے ٹاسک دے دیا ہے۔ بھارت چین کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی اپنی رسوائی کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتا ہے تاکہ وہ پاکستان مخالف ہندوﺅں کی حمایت حاصل کر سکے اس پس منظر میں عمران خان کے اتحادیوں کا ایک کے بعد دوسرے کا حکومت سے الگ ہونے کی وارننگ سمجھ سے بالاتر ہے آخر یہ سارے خانے ایک ساتھ ہی کیوں میچ ہو رہے ہیں، کس کی لگامیں کہاں سے اور کون ہلا رہا ہے۔۔۔؟ یا پھر یہ سب اتفاق ہے اس لئے یقینی طور پر کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا، میرے پاس بھی ایسے کوئی شواہد نہیں کہ میں یقینی طور پر کچھ کہوں یہ سب قیاس آرائیاں ہیں لیکن جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ ملک کے ساتھ ٹھیک نہیں ہو رہا ہے اس کا احساس ان اتحادیوں کو ہونا چاہئے وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں وہ بھی اس ملک کے اتنے ہی محب الوطن ہیں جتنا خود عمران خان ہے اور وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ انہوں نے جب حکومت بناتے ہوئے ان اتحادیوں کو جن شرائط اور معاہدے کے تحت اپنے حکومت میں شامل کیا تھا آخر کیا وجہ ہے کہ ان کے ساتھ کئے جانے والے وعدے پورے نہیں کئے جارہے ہیں؟
مجھے معلوم ہے کہ اتحادیوں کے بعض شرائط ایسے ہیں جن کا تعلق حکومت سے زیادہ سیکورٹی فورسز سے ہے جن پر عمل درآمد کروانا خود عمران خان کے بس میں نہیں جس کی وجہ سے عمران خان کو ہر بار اپنے اتحادیوں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا ہے اس لئے عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنے ان اتحادیوں کو صاف صاف کہہ دے کہ ان کی شکایتیں حکومت سے نہیں بلکہ سیکورٹی فورسز سے ہیں لیکن عمران خان بحیثیت وزیر اعظم ایسا بھی نہیں کر سکتے انہیں ہی جمہوری طور طریقوں کے مطابق جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اور انہیں خود سیکورتی فورسز سے بات کرکے اپنے اتحادیوں کے ان جائز مطالبات کو ہر حال میں حل کروانا ہو گا اور اگر عمران خان ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں کسی بھی دوسرے طریقے سے اپنے اتحادیوں کو رام کرنا ہو گا کیونکہ یہ نمبر گیم کا کھیل ہے نمبر پورے نہ ہونے سے ان کی حکومت ہوا کے معمولی جھونکے سے بھی گر جائے گی اس لئے عمران خان کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر وقت ضائع کئے بغیر ہی اپنے ان اتحادیوں سے خود رابطہ کریں۔ خود ان سے ملاقات کریں اور ان کا اعتماد حاصل کریں انہیں اپنی مجبوری سے آگاہ کریں ورنہ اپوزیشن کے سیاسی یتیم ان بجھتی ہوئی چنگاریوں کو ہوا دے کر آگ کا شعلہ بنانے کی کوشش کریں گے تاکہ اس آگ سے عمران خان کی حکومت جل کر خاکستر ہو جائے اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے عمران خان فوری طور پر دونوں اتحادیوں سے رابطہ کرکے انہیں ملاقات کے لئے مدعو کریں اور نیک نیتی کے ساتھ ان کے گلے اور شکوے دور کریں ورنہ دشمن اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں ہے یہ ہی مشورہ سیکیورٹی فورسز کے لئے بھی ہے کہ وہ اس طرح کے معاملات کو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے اسے افہام و تفہیم سے حل کرے اسی میں پاکستان کا استحکام اور اس کی سلامتی مضمر ہے جو اس وقت کے حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں