امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 204

افغانستان + طالبان + امریکہ

بالاخر افغانستان سے امریکہ اور اس کا سب سے بڑا اتحادی ہندوستان سب کچھ گنواتے ہی بیس سالوں بعد نکل گیا اور اس وقت پورے افغانستان میں بلاشرکت غیرے طالبان کی حکومت قائم کردی گئی ہے۔ 2015ءمیں افغان پارلیمنٹ کی تعمیر پر بھارت جو 9 کروڑ ڈالر خرچ کئے تھے اس کی سرمایہ کاری بھی دھری کی دھری رہ گئی اور انہیں بھی دوسرے قابضین کی طرح سے دُم دبا کر افغانستان سے فرار ہونا پڑا جس کی وجہ سے بھارتی ایجنسی ”را“ اور افغان ایجنسی ”این ڈی ایس“ کا غیر فطری اتحاد بھی زندہ درگور ہو گیا اور ان کے دہشت گردی کے تمام کے تمام منصوبے شرمندہ تعمیر ہونے سے پہلے ہی اپنی موت آپ مر گئے۔
یہ جو کچھ میں ضبط تحریر کررہا ہوں ایسا سب کچھ ہو گیا لیکن یقین جانیے کہ مجھے خود بھی ابھی تک اس ساری صورت حال پر نہ جانے کیوں یقین نہیں آرہا؟ کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جدید ہتھیاروں سے لیس امریکی افواج بلا کسی مزاحمت کے اتنا بڑا ملک طالبان کے حوالے کرکے چلی گئی اور اب تو ان کی حیثیت کو خود اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کرلیا ہے اور اس سارے دنگے فساد کا ڈائریکٹر ملک کہاں چھپا ہے جو یہ سارے فساد کی جڑ ہے جو ان پختونوں کو دیوار سے لگانے کی خوفناک منصوبہ بندی پر قمر بستہ ہے جو بقول ان کے کبھی ان کا حصہ تھے لیکن وہ اب ہم میں نہ رہے اور ہمارے لئے پرابلم ہی پرابلم پیدا کررہے ہیں اس لئے وہ ان کی نسل کشی کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ وہ طالبان کی آڑ میں ایک ایک کرکے ان تمام کو روئے زمین سے صاف کردیں گے۔
افغانستان طالبان کے کنٹرول میں آگیا اب بھی دل نہیں مان رہا ہے، برسوں قبل جب رحمن ملک وزیرداخلہ تھے تو کسی جگہ ان کا بیان کوڈ ہوا کہ جو مجاہدین یا طالبان پاکستان میں سیکورٹی فورسز سے مقابلے میں مارے گئے تھے جب ان کا پوسٹ مارٹم کروایا گیا تو ان میں سے تو بیشتر مسلمان ہی نہ تھے۔ البتہ ان کا حلیہ ان کی داڑھی اور شلوار قمیض کی وجہ سے طالبان اور مجاہدین والا بھی لگ رہا تھا۔ رحمن ملک کے اس بیان کا تذکرہ میں نے اس موقع پر اسی لئے کہا کہ مجھے جو صورتحال کی تبدیلی کا یقین نہیں آرہا ہے اس کے پیچھے یہ سارے خدشات ہیں اس لئے کہ 2023ءمیں ترکی بھی سو سالہ معاہدے سے آزاد ہونے جارہا ہے۔ ایسے موقع پر سی پیک منصوبے کے ذریعے چین کی توسیع پسندی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بہت ہی بُری طرح سے کھٹک رہی ہے اور ایسے موقع پر اس مورچے کو خالی کرنا جس سے تمام مخالفین کو بہ آسانی کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس حرکت میں کوئی نہ کوئی ایسی حکمت ضرور پوشیدہ ہے جس کا علم یہ طریقہ کار اپنانے والوں کو تو ہے لیکن دوسرے کردار جو اس صورت حال سے متاثر ہو رہے ہیں انہیں اس کا علم نہیں ہے۔
ایک ملا جلا رجحان یقینی اور غیر یقینی صورت حال کا ہے جس سے اس وقت پوری دنیا ہی متاثر ہے، مجھے دلی طور پر خوشی ہوئی کہ افغانستان کو اس کا وہ حق مل گیا جس کا وہ مستحق تھا، افغانستان فطری طور پر ایک آزاد ملک ہے وہ کبھی بھی غلام نہیں بن سکا، دوسروں کو غلام بنانے والوں کا سہولت کار ضرور بنا مگر خود کبھی غلامی کی طوق پہنے کا روادار نہیں رہا۔ اس کی تاریخ میں وہ پہلی بار 20 سالوں تک امریکہ جیسے سپرپاور کا غلام رہا لیکن جس طرح سے انگریز صوبہ سرحد کے پختونوں کو اپنا غلام بنانے کا خواب دل میں ہی لئے ہندوستان سے رخصت ہوئے تھے اسی طرح سے امریکہ بھی اپنے اس خواب کو اپنے ساتھ لئے افغانستان سے بالاخر رخصت ہوا اور وہ ہندوستان جو افغانستان کے سہولت کار کی وجہ سے درجنوں بار قزاقوں کے ہاتھوں لٹتا اور برباد ہوتا رہا، وہ بھی افغانستان میں اپنے 32 قونصل خانے کم اور چھاﺅنیاں زیادہ بنانے کے باوجود افغانستان کو اپنا دوسرا گھر یا ایک صوبہ بنانے کا خواب دل میں لئے وہاں سے دبے پیر جان بچاتے ہوئے فرار ہوا۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس سے وہ سارے کے سارے فاتحین دوچار ہیں جو افغانستان کو فتح کرنے نکلے تھے۔ میرا پھر وہی سوال ہے کہ امریکہ اتنی بڑی سرمایہ کاری کرنے کے باوجود خالی ہاتھ وہاں سے کیوں لوٹا۔ چار امریکی صدور مختلف پالیسیوں کے ساتھ افغانستان پر اپنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی قبضہ جمائے رکھے ہوئے تھے اور اپنا سرمایہ پانی کی طرح سے وہاں بہا کر اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کو سہارہ دیتے ہوئے اپنے مخالفین خاص طور سے چین، ایران اور پاکستان اور روس ترکی کو ہاٹ ٹائم دیتے رہے اس کے باوجود امریکہ کا اپنے اتحادیوں کے ساتھ اتنے بڑے فوجی چھاﺅنی کو چھوڑنا سمجھ سے باہر ہے۔ خود طالبان کی اکثریت بھی اس امریکی حکمت عملی کو اپنی بہادری اور ان کی تاریخ ساز بزدلی کے بجائے کسی اور زاویے سے سمجھنے کی کوشش کررہی ہے، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کی جارہی ہے، کچھ تو ہے جسے دنیا اور خاص طور سے میڈیا کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ ایک بہت بڑا ڈراپ سین ہے جو اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہو رہا۔۔۔ ممکن ہے جیسے نظر آرہا ہے ویسا ہی ہو اور امریکی انتظامیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہو کہ بش انتظامیہ نے اپنے جارحانہ اقدامات کی وجہ سے امریکہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس کی اب موجودہ حکومت ازالہ کررہی ہے جس کی ابتداءڈونلڈ ٹرمپ نے کی ہے اور ان ہی پالیسی کو اب موجودہ صدر جوبائیڈن آگے بڑھا رہے ہیں لیکن جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا کے امن کے لئے بہتر ہے اب دیکھنا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا شیطان ملک اس انقلابی تبدیلی کو کس طرح سے دیکھ رہا ہے اور آگے جا کر وہ کس طرح سے اپنے تھانیدار کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے گا فی الحال تو پاکستان اور ترکی کو افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں