۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 130

اقبال کا سارے جہاں سے اچھا ہندوستان؟

ہندوستان کے زرخرید غلام جو اپنے ملک کے وسائل لوٹ کر ہندوﺅں کے ساتھ شراکت داری اور ساری دنیا میں ملک کو کھوکھلا کرکے حرام کی کمائی ان ہندوستانیوں کے ذریعے سرمایہ کاری میں مصروف ہیں ان میں اگر جاتی عمرہ (امرتسر) کے کنجر بازار میں ہار بیچنے والے کا پوتا ہو یا بیوی کے بل بوتے پر اقتدار اور ملک کی دولت لوٹ کر سوئز بینکوں میں تجوریاں بھرنے والا ہو یا سرے محل خرید کر ہوس دولت کا دیوانہ ہو یا اقتدار میں رہتے ہوئے ملک اور مسلمانوں کے دشمن نمبر ون مودی کو بلا پاسپورٹ اور ویزرا لاہور کے جاتی عمرہ میں اپنی بہو بیٹیوں کے پہلو میں بیٹھانے والا ہو، یہ سب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نطفوں میں ہندوﺅں کے اثرات ہیں اور ان کے یہی جرائم ان بدذاتوں کو سروں پر بٹھانے کی ”سعادت“ حاصل کرتے ہیں۔ آج لندن میں بیٹھ کر ہندوستانی ایجنسی ”را“ کے ذریعے ملک کے مفاد کو داﺅ پر لگانے والا نام نہاد شریف کا مغوی باپ نریندر مودی نے اپنی اصلیت دکھا دی ہے، اس وقت پاکستانی سیاست اور اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے تمام عناصر شریف، زرداری اور فضل الرحمن نہ صرف ہندوستان نواز ہیں بلکہ وہ پاکستان کے مفادات کے خلاف ہندوستانی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ بے غیرت نام نہاد اسلامی ممالک جنہوں نے اپنے ممالک میں ہندوستان کو مسلمانوں کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہوئے لاکھوں ہندوﺅں کو کلیدی عہدوں پر مقرر کیا ہوا ہے اپنی سرزمین پر بڑے بڑے مندروں کی حکومتی سرمائے سے تعمیر کرائی ہوئی ہے اور یہی نہیں بلکہ ان مندروں میں وہ کافروں کی عبادتوں میں شریک ہوتے ہیں جیسے کے زرداری کا بیٹا ہندوﺅں کی عبادت میں بتوں کے سامنے ”ارتی“ اتارتا ہے، ہولی کھیلتا ہے اور رنگ رنگالیاں مناتا ہے، یہ ”ہیجڑہ“ اس وقت اس ملک کا وزیر خارجہ ہے جس کا باپ ہندوﺅں کا زرخرید غلام ہے اور ملک کو ان کے ہاتھوں بیچنے کو تیار ہے۔
آج اس تلخ نوائی کی وجہ کٹر ہندو شخص اور ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی وہ تقریر ہے جو اس نے پارلیمنٹ میں کی ہے اس نے بغیر کسی جھجھک اور رواداری کے اس بات کا اعلان کردیا ہے کہ ہندوستان میں اگر رہنا ہے تو صرف اور صرف ہندو بن کر رہا جا سکتا ہے صرف وہ زبان بولی جا سکتی ہے جو ہم بولتے ہیں اور کسی مذہب کے ماننے والوں کے لئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے اور جنہیں یہ باتیں قبول نہیں ہیں وہ ہندوستان سے چلے جائیں، اس نے یہ بھی کہا ہے کہ شریعہ قانون کی ہندوستان میں کوئی حیثیت نہیں ہے یہاں صرف ہندو مذہب اور ہندوﺅں کے رسم و رواج کے علاوہ اور کسی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اس ملک میں ہندو اکثریت ملک ہندوستان میں اقلیتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے جب کہ یہاں صرف اور صرف ہندو مذہب، رسم و رواج اور زبان کا راج ہو گا۔ ہندوستان میں اقلیتوں کے متعلق بنائے گئے انتہائی سخت قوانین کے بعد نریندر مودی کا یہ سرکاری بیان گویا تابوت میں آخری کیل ہے۔ اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ ”ہندوستان میں اگر رہنا ہے تو صرف اور صرف ہندو بن کر رہنا ہوگا۔ اس کا کہنا تھا کہ جو بھی اقلیت ہندوستان میں رہتی ہے ہندوستان کا کھاتی ہے اگر اسے یہاں رہنا ہے تو کہ وہ ہندوستانی طرز زندگی اختیار کرے اور صرف ہندوستان کی زبانیں ہندی، گجراتی، پنجابی، بنگالی اور جنوبی ہندوستانی زبان بولے۔ انہیں چاہئے کہ وہ ہندو قوانین کا احترام کریں اور ان پر عمل کریں اس نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اپنے شریعی قوانین پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ ہندوستان چھوڑ کر ان ممالک چلے جائیں جہاں یہ قوانین چلتے ہیں اس نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمان اقلیتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ انہیں خصوصی مراعات دی جائے گی کہ ان کے لئے قوانی میں تبدیلی کائے اس کے لئے وہ جتنا چاہیں شور غوغا کریں، چیخ پکار کریں، ہندو قانون میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، اس نے کہا کہ ہندوﺅں کے مذہبی ”ویدوں“ کے قانون کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیاز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
مودی نے کہا کہ ہم مسلمانوں کے کردار سے واقف ہیں جن کا مذہب انہیں خودکش حملہ آور بننے کی تلقین کرتا ہے جس کی مثالیں امریکہ، انگلینڈ، نیدرلینڈ اور فرانس میں ہونے والے خودکش حملے ہیں جب کہ انہوں نے کشمیری پنڈتوں کا ہٹلر کی طرح یہودی کا ”ہولی کاسٹ“ کیا اسی طرح کشمیری پنڈتوں کو بھی ہلاک کیا ہے، جموں کشمیر میں ان کے مظالم کے شکار پنڈت ابھی تک ان ہلاکتوں کو نہیں بھولے ہیں۔ اس نے کہا کہ مسلمان ان ممالک میں جو کچھ کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں ایسا انہیں ہندوستان میں نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اس نے کہا کہ 1947ءمیں ہماری زمین کو کاٹ کر مغربی اور مشرقی پاکستان بنا دیا گیا جب کہ ہندو رسم و رواج اور روایات کسی طرح بھی شرعی قانون کے ساتھ نہیں چل سکتے، جس کا مطالبہ مسلمان کررہے ہیں اور نہ ہی ہندو کسی بھی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ اس نے دعویٰ کیا مسلمان اقلیت کسی بھی طرح ہندوستانی نہیں ہو سکتیں۔
اس تقریر کے دوران اور اختتام پر بھارتی پارلیمنٹ میں ممبران نے کھڑے ہو کر پانچ منٹ تک تالیاں بجائیں اور مودی کے خیالات کی تائید کی۔ نریندر مودی کی اس تقریر کے بعد کیا وہ مسلم ممالک جو ہندوستان کو اپنا دوست اور مودی کے گلے لگ کر کے اور اسے ہار پہنا کر خوش ہوتے ہیں کو کچھ غیرت آئے گی اور وہ سرکاری سطح پر ہندوﺅں کو اپنے ممالک سے نکال کر باہر کرنے کا اعلان کریں گے؟ اور موجود نام نہاد مسلمان حکمرانوں سے اس بات کی توقع کرنا دیوانہ کا خواب ہے وہ اپنے مادی مفادات کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور یہ بات ان کے خون میں شامل ہیں جو عرب انگریزوں کے ساتھ مل کر خلافت شرکیہ کو ختم کر سکتے ہیں وہ ہندوﺅں کے ساتھ مل کر پاکستان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور پہنچا رہے ہیں ادھر کفار ہندوستان کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی بنیاد رکھ رہے ہیں جسے اسرائیل، امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس کے علاوہ بہت سے ممالک کی تائید حاصل ہے جس کے بعد اگلا مرحلہ پاکستانی فوج اور ایٹمی اثاثوں پر پابندی ہو گا اور پاکستان کے مفاد پرست حکمرانوں کی مدد سے کروڑوں مسلمان ہندوﺅں کے غلام بن کر رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں