ایک حکایت جو بہت قدیم ہے مگر جدید ترین بھی ہے یہ بتاتی ہے کہ انسانی اعمال کا تعلق درت کی طرف سے ایک طے شدہ امر ہے اور خالق نے جو اس کائنات کے لئے پروگرام فیڈ کردیا ہے وہ کسی ایک وقت، ایک خطے یا ایک صورت حال کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ آفاقی فیصلہ ابد سے ازل تک پر محیط ہوتا ہے اور اس میں کو ردوبدل نہیں ہوتا۔ مگر انسان جسے اللہ نے ”جاہل“ قرار دیا ہے اس واقعات کی توجیح طرح طرح سے کرتا ہے اور یہ ان اعمال سے شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن دبا کر اسے نظر انداز کردیتا ہے کہ ہمارے کئے کی سزا نہیں ہے بلکہ یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ اب حکایت سن لیجئے۔ کسی زمانے میں ایک بادشاہ بمعہ اپنے لاﺅ لشکر کے ساتھ شکار کھیلنے نکلے۔ (اب بادشاہ لاﺅ لشکر کے ساتھ جہازوں میں قومی خزانوں کو نقب لگا کر لندن، پیرس، نیویارک اور دوبئی جا کر حسینوں کے شکار کرتے ہیں) شکار کرتے کرتے بادشاہ کے ساتھ تتر بتر ہو گئے اور بادشاہ ان سے بچھڑ کر ایک ایسے علاقے میں پہنچ گیا جہاں پھلوں کے باغات تھے۔ بادشاہ پیاس کے مارے بے حال ہو رہا تھا کہ ایک باغ میں اس کی نظر وہاں ایک شخص پر پڑی۔ بادشاہ نے یہ ظاہر کئے بغیر کہ وہ کون ہے اس سے پانی مانگا۔ پھر اس شخص نے جو اس باغ کا مالک تھا ایک رس دار پھل توڑ کر اس کا رس نکالا اور پیالہ بھر کر ”اجنبی“ کی خدمت میں پیش کردیا۔بادشاہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ پھل اس قدر رس دار ہیں اور ان سے اس کے مالک کو زبردست نفع حاصل ہوتا ہوگا۔ بادشاہ نے سوچا کہ واپس جا کر وہ ان باغات پر محصول عائد کرے گا تاکہ خزانے میں مزید دولت آجائے۔ بادشاہ نے اس شخص سے ایک اور پیالے رس کی خواہش کی، مالک نے ایک پھل توڑ کر پیالے میں رس نکالا تو پیالہ خالی رہا اس نے ایک اور پھل سے رس نکالا پھر بھی پیالہ خالی رہا اور تیسرے پھل سے رس نکال کر پیالہ بھرا۔ اس پر بادشاہ نے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ پہلے ایک پھل سے پیالہ بھر گیا اب تین پھلوں سے بھرا ہے تو اس شخص نے کہا کہ شاید ہمارے بادشاہ کے دل میں لالچ نے گھر کرلیا ہے جس کی بدولت رزق سے برکت اڑ گئی ہے۔
یہ حکایت ایک آفاقی حقیقت ہے کہ جب حکمران لالچی، دھوکہ باز اور لٹیرے بن جائیں تو رعایا بھوکوں مرنے لگتی ہے اور خیر و برکت اٹھ جاتی ہے۔ اس ملک پاکستان میں بھی خیر و برکت ختم ہونے کی وجوہات بھی اس حکایت جیسی ہیں۔ اس ملک کا مقدر کہ اس ”مملکت خداداد“ پر زرداری جیسے بدکار، بددیانت اور خائن حکمران ہوئے اور یہ بیس کروڑ چوپائے اس کی اطاعت کرتے رہے اب ایک بار پھر جب اس کے گرد احتساب کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے تو یہ بہروپیہ بہروب بدل بدل کر پرانی چالیں چلنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس شخص کو ایک زمانے میں اس ملک کا اسٹیبلشمنٹ اس بات پر غور کررہا تھا کہ 2018ءمیں زرداری اور عمران خان کو مشترکہ طور پر حکومت دیدی جائے مگر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ بوجہ یہ بیل منڈے نہ چڑھ سکی۔ اس ابن الوقت کے بارے میں ممتاز شخصیت اور پاکستانی ہوٹل انڈسٹری کے لیجنڈ صدر الدین ہاشوانی نے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک برطانوی صحافی نے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ان سے دریافت کیا تھا کہ ”ایک شخص جس کا ملک بدترین بحران کا شکار ہو اور جس نے چند ماہ قبل ہی اپنی بیوی کھوئی ہو، اس حساب سے زرداری کچھ زیادہ ہی مسکراتا ہے“۔ (سادہ لوح صحافی کو کون بتائے جس کی لاٹری نکل آئی ہو، بیوی کو مروا کر اقتدار مل گیا ہو تو وہ مسکرائے گا نہیں تو کیا روئے گا)۔ یہ اس کی وہ خون آشام مسکراہٹ تھی جو ایک درندہ اپنے سامنے معصوم شکار کو دیکھ کر منہ پر لاتا ہے۔ وہ لوگ جن کے مفادات اس شخص سے وابستہ ہیں اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ زرداری یاروں کا یار ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے حصول حکومت کے لئے مرتضیٰ بھٹو کو قتل کرایا جس نے اپنی بیوی کو مروایا اور ان آٹھ افراد کو بھی قتل کروا دیا جو بے نظیر بھٹو قتل کے معاملے میں ملوث تھے اور یہ وہ لوگ تھے جو زرداری کے انتہائی اعتماد کے لوگ تھے۔ یہ شخص لوگوں کو نوازتا بھی اپنے مطلب کے لئے جس کی مثال ذوالفقار مرزا ہے کہ اسے ہر ہر طریقے سے نوازا، اس کی بیوی کو قومی اسمبلی کا اسپیکر بنوایا مگر بعد میں اس کی ساری شگر ملوں اور زمین پر قبضہ کرلیا، یہی نہیں بلکہ اس کے قتل کے انتظامات کئے وہ تو بھلا ہو میڈیا کا کہ اس نے ذوالفقار مرزا کی جان بچوا دی۔ اسی طرح اس کے اسکول سے لے کر طویل عرصے تک دوست کہا جانے والا انجم شاہ بھی تھا جسے اس نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بے حد نوازا، اس کے ناز نخرے اٹھائے، بعد میں اس کا سب کچھ بڑپ کرکے اسے راندہ درگاہ بنادیا۔ اس کا منہ بولا بھائی اس کے سارے کالے کرتوتوں میں گلے گلے اس کا شریک ”مظفر ٹپی“ سے ناجائز کام کروانے، اس کے نام پر جائیدادیں حاصل کیں اور بعد میں اسے ملک سے فرار کرکے اس کی سازی جائیداد پر قبضہ کرلیا اور اسے دوبئی میں محض ایک فلیٹ پر ٹرخا دیا۔
1988ءمیں ایک شخص ستار کریو نامی منظر عام پر آیا اس کے نام سے اربوں روپیہ کی آراضی خریدی گئی لیکن 2002ءمیں جب زرداری ملک پر قابض ہو کر سیاہ سفید کا مالک بن گیا تو ستار کریو کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے اور اس کی ساری جائیداد اور اثاثے اپنے نام کروا کر اسے بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ اسی زمانہ ساز شخص نے جس ذیشان کاظمی کے ذریعہ مرتضیٰ بھٹو کو قتل کروایا تھا اسی ذیشان کی گولیوں سے چھلنی لاش 2003ءمیں فیروزپور تھانہ کی حدود میں ایک کچرا کنڈی سے ملی اس کے ایک اور یار رےاض کا عبرتناک قصہ اس کا سب کچھ چھین کر اور اس کے اغواءکا جعلی ڈرامہ بنا کر اسے ملک بدر کرکے دبئی روانہ کردیا گیا۔ اس نے خالد شہنشاہ (جو بے نظیر کے قتل کے وقت قاتل کو اشارے کررہا تھا) جس نے اپنے آقا کے کہنے پر خون اور آگ کی ہولی کھیلی تھی اور اس کے بھیانک جرائم میں اس کا دست راست تھا کو مروادیا۔ اسی فہرست میں رحمان ڈکیت بھی شامل ہے جسے چوہدری اسلم کے ذریعے جعلی پولیس مقابلے میں مروا دیا۔ اس رحمان ڈکیت نے لیاری گینگ کے ذریعے لاتعداد اردو بولنے والوں کو قتل کیا اور ان کی جائیدادوں کو نذر آتش کیا تھا۔ اس کے بعد پھر وہی کھیل کہ چوہدری اسلم کو ایک بم دھماکے میں ختم کرادیا تاکہ کوئی شہادت باقی نہ رہے۔
سکھر کا محمد علی شیخ جس کا بھائی تاج محمد شیخ جو شیردل کنگ کہلاتا ہے کہ ذریعے بے تحاشہ زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کرایا گیا اور ایک وقت میں وہ زرداری کی ناک کا بال کہلاتا تھا۔ مگر جب کام ہو گیا تو اس سے ساری جائیداد لے کر اسے امریکہ پارسل کردیا گیا۔ اس سے قبل وہ چار ماہ تک ”حفاظتی تحویل“ میں رہا۔ اس کا ایک اور فرنٹ مین اس کے سیاہ کارناموں میں شامل ایک شخص ڈاکٹر نثار مورائی نے جب پچھلے سال گرفتار کیا گیا تو اس نے جے آئی ٹی کے سامنے اس کے کالے کرتوت بیان کئے اس نے بتایا کہ کس طرح آصف زرداری حکم دیا تھا اور ذوالفقار مرزا اور وہ (ڈاکٹر نثار) اس پر کس طرح عمل کرتے تھے اس کے بیان میں نواب لغاری کا نام آیا جسے اسلام آباد سے اٹھایا گیا۔ عین اسی روز کراچی اور حیدرآباد کے درمیان اومنی گروپ میں مالی معاملات کے انچارج اشفاق لغاری کو اٹھایا گیا۔ یہ معاملات اتفاقی نہیں تھے بلکہ طے شدہ منصوبہ بندی تھی ابھی یہ معاملہ ایک طرف ہوا ہی نہیں تھا کہ ٹنڈو الہ یار کے زمیندار غلام قادر مرسی کو بھی حیدرآباد سے اٹھا لیا گیا۔ اس طرح چار دن میں زرداری نے تین انتہائی قریبی ساتھیوں کو اٹھا لیا گیا۔ ایک عجب پراسرار معاملہ ہے ان لوگوں کی بازیابی کے لئے حکومت سندھ انتہائی بے دلی سے کوشش کررہی ہے اور ان کی ”پراسرار“ گمشدگی میں بھی ایسے ہاتھ ہے جو ان سے سارے کام نکلوا کر اور ان سے سب کچھ چھین کر اب ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (جاری ہے)
647