۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 582

بہروپئے

پیپلزپارٹی کی بیمار اور جہل زدہ فطرت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ جماعت جسے اس کے بانی نے ترقی پسند رجحان کی جماعت بنانے کا دعویٰ کیا تھا، خود ایک آمرانہ جاگیردار اور رعونت ذہن کا مالک تھا جس نے اپنی بدفطرت اور ذاتی اقتدار کے حصول کے لئے ملک کو دولخت کردیا۔ اس نے اپنے دور اقتدار میں ان بانی اراکین کے خلاف جو کچھ کیا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اس کے دور میں اس کے سوشل ازم کے نام نہاد نعرے کے جواب میں اس کا عمل خالصتاً مزدور دشمن رہا اور اس نے مزدوروں کا کارڈ کھیل کر ملکی صنعتوں کو تباہ و برباد کردیا اور صنعت کاروں کو ذاتی انتقام کا نشانہ بنایا۔ اس ترقی یافتہ شخص نے تعلیم کو سرکاری تحویل میں لے کر تعلیم کے معیار کو انتہائی پست کردیا۔ جس کے نتیجے میں آج پاکستان کا تعلیمی معیار دنیا میں کم ترین سطح پر ہے۔ اس شخص کے لگائے ہوئے پودے نے آج ایک تناور درخت بن کر انتہائی تلخ پھل پیدا کررہا ہے اور دن بدن اس زوال پذیر جماعت کے ذریعہ ملک میں انارکی کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔ اس کی بیٹی نے جو آکسفورڈ کی پڑھی ہوئی کہی جاتی تھی اپنے دور اقتدار میں ملک کی سالمیت داﺅ پر لگا دی تھی اور اپنے لٹیرے شوہر کے ساتھ مل کر لوٹ مار کا بازار گرم کیا، سرے محل اور آبدوزوں کی خرید میں اربوں روپیہ کا کمیشن کھانے والا شخص جس کے ہاتھ بے شمار لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جو اپنے برادر نسبتی مرتضیٰ بھٹو کو سرعام قتل کرانے کا ذمہ دار تھا اور جس پر اپنی بیوی کو راستے سے ہٹا کر اس کی جعلی وصیت لہرا کر اقتدار پر قبضہ کرنے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ جس نے حصول اقتدار کے لئے کراچی میں لاتعداد بے گناہوں کو قتل کرایا اور اربوں روپیہ کی جائیداد کو نذرآتش کیا۔ بے شمار اے ٹی ایم مشینوں اور ٹرالرز کو اس کے جرائم پیشہ افراد نے لوٹا، جنہیں اس مقصد کے لئے اندرون سندھ سے کراچی لایا گیا۔ یہ وہی شخص ہے جس نے اقتدار کے نشے میں چور ہو کر فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی تھی اور یہ کوئی نئی بات نہیں تھی اس کی بیوی نے بھی سندھ میں تقریروں میں بھارتی ٹینکوں پر سوار ہو کر پاکستان کو تباہ کرنے کی باتیں کی تھیں۔ اسی پارٹی کا ایک وزیر جس کی اوقات ایک معمولی واپڈا کے ملازم کی تھی آج پانچ ارب کا مالک ہے اور یہ شیشے کے گھر کا مکین کہتا ہے کہ وہ کسی قیمت پر ڈیمز تعمیر نہیں ہونے دے گا۔ یہی نہیں بلکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کو سیاسی جماعت بنا کر ڈیم بنانے کی بات کررہا ہے۔ ادھر ایک بھنگ نوش وزیر اعلیٰ سندھ کی بیٹی وزیر اعظم ہاﺅس کو یونیورسٹی بنانے کی تجویز پر چراغ پا ہے اور اسے عوام کی ملکیت بتا کر کہہ رہی ہے کہ عمران خان بنی گالا میں یونیورسٹی قائم کرے۔ اس ذہنی نابالغ کو کوئی بتائے کہ تمہاری لیڈر نے جو اپنی مکروہ مسکراہٹ بھی بھول چکا ہے اپنی بیوی کے دور میں وزیر اعظم ہاﺅس کو گھوڑوں کا اصطبل بنا دیا تھا اور اسے ایک محل میں تبدیل کردیا تھا جہاں فاحشوں کا ڈیرہ رہتا تھا۔ دراصل پیپلزپارٹی کے یہ سارے کارندے محض اس لئے شور غوغا کررہے ہیں کہ اب زرداری کے دن بھی نزدیک آگئے ہیں۔
وہ عیار شخص جس نے بلاول ہاﺅس کے اطراف کے 48 بنگلوں کو اپنی من مانی قیمتوں میں خریدا ہے اور ان کے مالکان کو اسلحہ کے زور پر، ان کے اہل خانہ کو اغواءکرنے کی دھمکیوں کے ذریعہ اور ان کے خلاف جعلی مقدمات بنا کر انہیں مجبور کیا گیا ہے کہ وہ اپنی جائیدادیں کوڑیوں کے مول بیچ دیں یہی نہیں بلکہ اس علاقے کے پارک، کھیلوں کے میدان حتیٰ کے سڑکوں تک کو قبضے میں لے کر اس پر ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ بنانے کی کوشش کی مگر عمران خان اقتدار میں آگیا اور اب ان کی فائلیں کھل گئیں ہیں تو یہ سارے حالی موالی بلکہ قوالی کی شکل میں کبھی جمہوریت کو خطرہ، کبھی سیاسی دشمنیاں اور کبھی وفاق کو خطرہ کے راگ الاپ رہے ہیں مگر جیسے کہ ہر برائی کو ختم ہونا ہوتا ہے اسی طرح ان کا خاتمہ بھی نزدیک ہے۔ اب چاہے مراد علی شاہ اپنی نوکری بچانے کے لئے ڈیمز باننے میں سندھ کارڈ استعمال کرے یا خورشید شاہ چیف جسٹس پر کیچڑ اچھالے۔ ہانیہ شاہ جیسی عورت فقرے کسے، احتساب تو ہونا ہی ہے، اب فرار کی کوئی صورت نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں