دوست ۔ متاع خاص 769

خدمت میں عظمت ہے

لفظ ”احساس“ زبان کی ادائیگی کے لحاظ سے مختصر لیکن عمل کے اظہار میں سمندر کی گہرائی سے گہرا اور آسمان کی وسعتوں سے کہیں زیادہ وسیع تر ہے۔ یہی محسوسات بعض اوقات ایک شخصیت کو تعریف و تحسین کے اونچے مینار پر کھڑا کر دیتے ہیں اور دوسرے لمحے احساس سے عاری شخص کو فرعون اور یزد کے روپ میں پیش کرکے دنیا کے لئے نفرت کا نشان ٹھہرا دیتے ہیں۔
احساسات کی دنیا میں مذہب، معاشرہ، کلچر، تہذیب و تمدن لباس زبان چہرے کوئی معانی نہیں رکھتے، یہ اندر کی آواز ہے جو کانوں تک پہنچ کر دماغ اور پھر روح میں بسیرا کر لیتی ہے یہی درد کا وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے، کہیں قوموں کو فتوحات کی نوید سناتا ہے اور کہیں فرعون کی قوم کی طرح غرق کر دیتا ہے۔ موسیٰ، فرعون، یزید، حسینؑ، یہ تمام اشخاص تھے لیکن شخصیت بن کر جئے، کوئی مشہور ہو گیا اور با مراد ٹھہرا اور کوئی بدنام زمانہ رسوا ہو گیا۔
احساس اور خدمت کے اسی جذبے کا اظہار ہر معاشرہ، ہر قوم، لوکل سطح پر جس طرح کرتے ہیں اس کی مثال وہ RIWC جیسے دوسرے ہیں جنہیں حکومت کی سرپرستی میں عوام کی خدمت کا موقع ملتا ہے۔ اور پھر یہ درسگاہیں، ادارے، تنظیمیں اپنے اپنے دائرہ کار میں فلاحی کاموں میں جو خدمات سر انجام دیتی ہیں وہ بلاشبہ بنی نوع انسان کی نظر میں عبادت سے کم نہیں اور صدقہ جاریہ ہیں جن کا ثواب ان اداروں کے روح رواں اور منتظم اعلیٰ کو ہمیشہ نصیب ہوگا۔
چند سال پہلے صحت سے متعلق آگاہی کے بارے میں منعقدہ ایک ورکشاپ میں جانے کا اتفاق ہوا، پھر گاہے بگاہے سیمینار، لیکچرز اور دیگر تربیتی پروگراموں نے میرے اندر کی سوچ کو جھنجھوڑا اور مجبور کیا کہ ان کی شمولیت میری ذہنی، جسمانی صحت کے لئے ایک نعمت خداوندی ہے۔ کیونکہ ان اداروں میں کمیونٹی کی سطح پر ذہنی آسودگی کے لئے جو علم اور معلومات مہیا کی جاتی ہیں ان سے فائدہ اٹھانا بلاشبہ خوش قسمتی ہے۔
ناہید، نزہت، ڈیبرا، عابدہ یہ تمام نام ان شخصیات کے ہیں جو علم اور خدمت کے احساس کا عکس ہیں۔ ساﺅتھ ایشین کمیونیٹیز کے لئے مقامی سطح پر ان تمام خواتین کی خدمات کسی بھی تعصب سے پاک ہیں۔ موجودہ دور میں اکثریت ذہنی دباﺅ کی وجہ سے زندگی کی دلچسپیوں اور رعنائیوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔
گھریلو حالات، مالی تنگدستی، معاشرتی دباﺅ، خاندانی مسائل، یہ تمام وہ زنجیریں ہیں جو خواتین کو مثبت انداز میں سوچنے کے بجائے منفی رجحانات کو جنم دینے پر مجبور کرتی ہیں۔ جس کا نتیجہ صحت کی خرابی اور مختلف بیماریوں مثلاً کولیسٹرول کی زیادتی، بلڈپریشر، ذیابیطس، ذہنی دباﺅ، ٹینشن، ہارٹ اٹیک کی صورت میں واضح نظر آتا ہے۔ ان حالات میں خواتین کا گھر سے باہر نکلنا اور صحت سے متعلق مختلف پروگرامز میں شرکت کرنا اور پھر گھریلو ذمہ داریوں کو بہترین جسمانی صحت کے ساتھ ادا کرنا بہت لازمی امر ہے۔ اس سلسلے میں کریڈٹ کی حق دار وہ قومیں ہیں جو اپنے شہریوں کا خیال رکھتی ہیں اور فلاحی ریاست کا تصور پیش کرتی ہیں اور جانتی ہیں کہ رعیت کے بارے روز قیامت یہ سوال پوچھا جائے گا کہ ان میں احساس ذمہ داری کہاں تک موجود تھا۔ مقامی سطح پر موجود ان کمیونٹی سینٹرز میں موجود دو خواتین ناہید اور نزہت سے دوران ملاقات یہ احساس اور گہرا ہو گیا کہ بطور ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کے اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ان دونوں خواتین کی انتظامی صلاحیت قابل تحسین ہیں۔ جو اپنے سینٹرز میں موجود خدمت انسانی کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنا تمام علم دوسروں کے ذہنوں میں منتقل کرنے اور پھر اس کا نتیجہ دیکھنے کے لئے بے تاب ہیں۔
کوئی بھی شخص اگر شعور رکھتا ہو تو وہ با آسانی اس چیز کا اندازہ کرسکتا ہے کہ ایک شخص کا فائدہ اس کے پیچھے آنے والی نسل اٹھا سکتی ہے آج ہم اپنی زندگی کو مثبت راہوں پر چلانے کے لئے مثبت سوچ کے ساتھ روزمرہ زندگی میں ایکٹی ویٹیز کو شامل کریں گے اور بیماریوں کا مقابلہ خود اعتمادی اور حوصلے سے کریں گے تو زندگی بوجھ محسوس نہیں ہوگی۔ جینے کی امنگ شدید تر ہوگی۔ نامساعد حالات کے باوجود اعتماد اور محنت کی منزل تک پہنچنا آسان ہوگا۔ پھر اپنے لئے اچھے اور بہتر طریقے سے جینا نہ صرف فائدہ مند ہو گا بلکہ دوسرے بھی اس سے مستفید ہوں گے کیونکہ ایک چراغ جلتا ہے تو اس کی روشنی پیچھے آنے والوں کو رستہ واضح کرتی ہے۔
سلام ان عورتوں کو جو احساس خدمت قربانی کا مظاہرہ کرنے کے بعد عظمت اور حقوق العباد کے سب سے اونچے مینار پر کھڑی ہیں۔ ثواب دارین کے خزانے سمیٹتی ہیں اور دعاﺅں کے حصار میں رہتی ہیں، لوگوں کو درس دیتی ہیں خدمت کا قربانی کا۔ زندگی مختصر سہی لیکن اعمال اور ذاتی کاوشوں کے دیدہ زیب لباس زیب تن کرکے معاشرتی قومی سطح پر اس کمیونٹی کے لئے باعث فخر ہیں جن سے ان کا مذہبی روحانی معاشرتی لسانی تعلق ہے۔ ایسے افراد زندہ قوم کی علامت تصور کئے جاتے ہیں کیونکہ وہ افراد میں زندگی کی روح پھونکتے ہیں، امید کا پیغام دیتے ہیں۔ ذہنوں کے ساتھ جسمانی صحت کو بہتر بنانے کے لئے اپنی تمام تر مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر اپنا وقت، خاندان، ذاتی دلچسپیاں اسی ایک مقصد کے لئے قربان کر دیتے ہیں۔
دراصل یہی وہ احساس ہے جذبہ ہے جسے ایک شخص دوسرے کو منتقل کرتا ہے اور دوسرا آگے سے کسی دوسرے کو۔ دعاﺅں ثواب کی زنجیر بہت مضبوط ہے۔ جو ہر اس ذی روح کو جکڑ لیتی ہے جو اچھی نیت کے ساتھ خلوص دل کے ساتھ اپنوں کا ساتھ دیتا ہے۔ اچھی صحت مند سوچ کے ساتھ بہتر زندگی کا خواب دکھاتا ہے۔ راستے میں موجود مایوسی، نامیدی کے بتوں کو پاش پاش کرکے امید اور خوشی کی طرف راہ دکھاتا ہے۔ ایسی تمام شخصیات کے لئے ڈھیروں دعائیں، وہ دعائیں جو دل سے نکلتی ہیں اور عرش تک جا پہنچتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں