دوست ۔ متاع خاص 657

ماں جی

رب کائنات نے اُس مختصر لفظ میں کتنی مٹھاس گھول کے ہماری کتاب ہستی کے ہر ورق پر انمٹ نقوش چھوڑنے والی تحریر کے طور پر کندہ کرکے اپنی تخلیق کو شان و شوکت کے سب سے اونچے مینار پر کھڑا کردیا ہے۔ خدا جانتا ہے کہ وہ ہر جگہ انسان کی مدد کے لئے نہیں پہنچ سکتا اس لئے اس نے اپنا آدھا کم ”ماں“ کے سپرد کردیا تاکہ انسانوں کے روپ میں ممتا کا لباس پہن کر ایک عورت افزائش نسل کو تکمیل تک پہنچا سکے اور اپنی اولاد کو زندگی کے خارزار میں تنہا چلنے کی طاقت اور حوصلہ دے سکے۔ عورت اگر ماں کے روپ میں اس روئے زمین پر جلوہ افروز ہوئی ہے تو میرے رب نے اپنی لاتعداد خصوصیات اس کے وجود میں شامل کرکے اس کے قدموں تلے جنت کی ضمانت دے دی ہے۔ پہاڑوں جیسا حوصلہ، سمندر کے پانی جتنی گہری سوچ، سورج کی تپش جیسی پگھلادینے والی قوت، فرشتوں جیسی معصومیت سے ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لینے کی صلاحت ایک ماں کو ودیعت کرکے گھر کی اصل مالک بنا کے سرخرو کردیا۔ کیا ایسی ہستی کے لئے جو خدا کا نور ہو، اس کا عکس ہو، صرف کسی ایک ماہ کے ایک دن کا خراج تحسین اور وہ بھی ”مدر ڈے“ کا نام دے کر اس کی بلند و بالا فخر و غرور پر مبنی عمارت کو جھکانے کی معمولی غلطی۔ ماں تو ہر لمحہ عبادت کرتی ہے، دعا کرتی ہے، اولاد کے لئے دعاﺅں کے حصار سے باہر نہیں نکلتی، اپنی ہستی کو فنا کردیتی ہے۔ اپنے تن سے بچے کے من کا رشتہ جوڑتی ہے۔ دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی دعاﺅں کے صلے کے طور پر آس پاس روح کی شکل میں پھرتی رہتی ہے۔ میری ماں بھی ایسی ہی ایک عام عورت تھی لیکن خاص قسم کی ماں تھی جو دنیا میں میرے لئے داﺅں کا وہ خزانہ چھوڑ گئی جس میں کبھی کمی نہیں آسکتی اس کا صلہ آج میں اپنی پرسکون، خوشحال زندگی میں محسوس کرتی ہوں اور پھر یہی نقش پا اپنی اولاد کے لئے میں چھوڑ جاﺅں گی تاکہ وہ بھی میری دعاﺅں سے فیض یاب ہو سکیں اور ان کے ساتھ میری روح کا رشتہ ہمیشہ منسلک رہے۔ وقت دھیرے دھیرے چلتا ہے لیکن کچھ حقیقتیں نقاب کشائی کے مراحل سے گزرتے وقت اپنا تاثر ذہن کے پردوں پر چھوڑ جاتی ہیں۔ بچپن اور جوانی میں ہم ان نصیحتوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ اپنی بے خیالی میں کڑوی کسیلی اینٹی بائیوٹک کی طرح نصیحت آموز مشوروں کو بمشکل نگلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اس سے بے خبر ہوتے ہیں کہ دوائی کا اثر جس طرح کچھ دیر بعد ہوتا ہے اسی طرح وہ سبق، وہ ہدایات بعض اوقات ہمارے مسائل کی کشتی کو پار لگانے میں ہمارے ممدو و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
ماں جی کا ایک فقرہ ہمیشہ میرے ذہن کی دیواروں سے چمٹا رہا، آج اس کی اہمیت واضح ہوئی تو اندازہ ہوا کہ رشتوں کی مضبوطی میں اس ایک فقرے کی کیا اہمیت ہے یعنی اگر آپ کسی دوسرے کو عزت و احترام دو گے تو واپس پلٹ کر آپ کے پاس وہی آئے گا کیونکہ یہ مکافات عمل ہے۔ ہماری موجودہ زندگی نہایت بے اطمینانی، بے سکونی، انتشار، خودغرضی جیسے پرانے انجن کی طرح حالات کے سفر پر چل رہی ہے جسے بار بار نفرت کے آلودہ تیل کو بدل کر صبر و استحکام اور محبت کے نئے پاورفل انجن آئل کی ضرورت ہے۔ ہمارے اندر نہ تو ہماری ماﺅں جیسا حوصلہ ہے، نہ صبر ہے، نہ رشتوں کو جوڑنے کا سلیقہ ہے اسی لئے ہم رشتوں کے تعاقب میں سرپٹ دوڑے جارہے ہیں۔ اس لئے کہ ہم قربانی دینا جانتے ہی نہیں، توقعات کی پٹی آنکھوں سے اُتار کر اُمید اور روشن خیالی سے جینا نہیں چاہتے۔ کوئی ایک لمحہ کسی دوسرے کی ماں کے لئے وقف کرنے کا سلیقہ نہیں رکھتے، چند منٹ کسی سے گفتگو کرکے کسی کی روح کو خوش کرنے میں اپنی توہین سمجھتے ہیں، ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنی مصروفیات کا بہانہ بنا کر کسی عمر رسیدہ ماں کو اپنا وقت دینا نہیں جانتے، مصروفیت دراصل بہانہ ہے اصل میں اہمیت ہے تو دوسرے کو ترجیح دینے کی۔ اور ترجیحات کے لئے خودغرضی کی آنکھ بند کرکے اپنے من کی آنکھ کو کھولنا ضروری ہے۔ جوانی کے پھول سدا نہیں مہکتے، طاقت، حرکت، جمود کا برفیلا موسم سب کو منجمد کردے گا۔ گزارا ہوا آج کل میں بدل جائے گا جس طرح آج ہم کسی کے لئے کسی ماں کے لئے وقت نہیں نکالتے، آنے والے کل میں کوئی ہم سے بھی کنارہ کشی اختیار کرے گا۔ اسی لئے آج سے ابھی سے ہر فیصلہ کرلیں کہ ایک مدر ڈے نہیں ہر روز مد ڈے ہوگا۔ اپنی ماں نہ سہی دوسروں کی ہی سہی۔ پورا دن نہ سہی چند منٹ، چند الفاظ، چند احساسات، چند مسکراہٹیں۔
دوڑ کر نہ سہی چل کر ہی سہی، اگر یہ بھی ناممکن ہو تو فاصلوں کو سمیٹ کر ایک فون کال ہی سہی۔ ایک محبت بھر اجملہ ہی سہی، کتنا وقت لگتا ہے، کتنی انرجی ضائع ہوتی ہے، کتنی مسافت طے کرنا پڑتی ہے، کتنے قدم چل کر جانا پڑٹا ہے صرف یہ لفظ کہنے کے لئے ”ماں جی“۔
رنگ، نسل، عمر، خاندان حسب و نسب کے بند اندھیرے کمرے سے باہر نکل کر اپنائیت کی روشنی میں رشتوں کے احترام میں کسی کی آنکھوں کی نمی کو محسوس تو کریں۔ کسی مدر ڈے کا انتظار نہ کریں، ہر رو ہر لمحہ اس دن کو منائیں، اپنے بچوں میں یہ احساسات مضبوط کردیں کہ وہ دعاﺅں کو سمیٹیں، محبتوں کو لوٹ کر دامن کو بھریں، اپنے ذہنوں کو خوشیوں سے بھریں اور نسل در نسل یہ تعلیم آگے پھیلائیں کہ محبت، احترام، قربانی، خدمت کبھی ضائع نہیں جاتیں، اپنی جنم دینے والی ماں کے ساتھ ہو یا کسی اور ماں کے ساتھ
میرا پیغام محبت ہے
جہاں تک پہنچے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں