نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 346

مجھے عشق ہے تجھ ہی سے۔۔۔

وطن عزیز کی زمین غداروں کے لئے زرخیز اور حب الوطنوں کے لئے بنجر بنتی جارہی ہے جب کہ سیاست اور اس کے باسیوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے لئے اجنبی اور بے گانے بھی بنتے جارہے ہیں۔ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کون ہیں جو دوسروں کے غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں؟ وہ خود اس ملک سے کتنے وفادار ہیں؟ ملک کو اس نہج پر پہنچانے کے ذمہ دار ادارے ہیں یا سیاسات دان؟ یہ ایک اس طرح کا حساس ترین موضوع رہا ہے جس پر ہر دور میں کسی نہ کسی انداز میں بحث ہوتی رہی ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے انداز فکر سے اس کا ذمہ دار کسی نہ کسی کو ٹھہراتا رہا ہے مگر اس کے باوجود کھل کر بات نہیں کی جاتی اس لئے کہ اس موضوع پر بات کرنے والوں پر غداری کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے اور انہیں ہر وقت یہ ہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر ہم لوگوں نے غلطی سے بھی کوئی دُرست اور حقیقت پر مبنی کوئی بات دلائل کے ساتھ کہہ ڈالی تو اگلے روز ہم بھی غداروں کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔ ان ہی صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں بھی اس حساس ترین موضوع پر بچتے بچاتے مگر حقائق کو مدنظر رکھ کر اصل صورتحال کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔ میرے نزدیک حکومتیں اور ادارے ثانوی اور ریاست اوّلیت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لئے میں وہی لکھوں گا جو ریاست کی فلاح و سلامتی کے لئے بہتر ہو۔ اس لئے کہ میری نظر میں ریاست اداروں اور حکومتوں دونوں پر مقدم ہے۔ ریاست کے ہی دم سے ادارے بھی رواں دواں ہیں اور حکومتیں بھی۔۔۔ اس لئے ہم سب کو پہلے ریاست کی بات کرنی چاہئے۔ اس سے اپنا رشتہ جوڑنا چاہئے اور اسی سے اپنا رشتہ ثابت کرنا چاہئے۔ لیکن قوم دیکھ چکی ہے کہ پچھلے چند سالوں سے مختلف سیاسی پارٹیوں کی حکومتوں اور ان کے وزراءنے اپنے اپنے سیاسی پارٹیوں اور ان کے فیصلوں کو ریاست اور اس کے امور پر ترجیح دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ حکومتی وزراءسینا چوڑا کرتے ہوئے جھنڈے لگی سرکاری گاڑیوں میں عدالتوں میں ریاست کی جانب سے اپنے پارٹی لیڈر کے خلاف درج مقدمات کی پیروی کرنے آیا کرتے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اس حلف کو بھی بھول گئے تھے جو انہوں نے ریاست سے وفادار رہنے کا اٹھایا تھا۔ یہ ہی وہ وجوہات ہیں جو ریاست اور اس کے باسیوں میں دوریاں پیدا کرنے کا باعث بنی۔ یہ ہی وہ وجوہات ہیں جس نے ریاست کو اس کے اپنے رہنے والوں کے لئے اجنبی اور بے گانہ بنا دیا۔ لوگوں کی غالب اکثریت حکومت کو تو جانتی ہے لیکن ریاست کے لئے وہ غیر بن گئے ہیں اس لئے کہ لوگوں کے مسائل ان کے کام ریاست سے نہیں حکومت سے حل ہوتے ہیں۔ ریاست تو میرٹ اور اپنے قوانین کی پاسداری چاہتی ہے جب کہ لوگ چور راستوں اور شارٹ کٹ کے عادی ہو چکے ہیں جو سوائے سیاسی حکومتوں کے اور کوئی نہیں کر سکتے۔ سیاسی حکومتیں ہی آﺅٹ آف وے اپنے ورکروں اور کارکنوں کے کام کرتی ہیں اور ان پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے کھول دیتی ہیں اس طرح کی صورتحال میں پھر کون ہو گا جو ریاست اور اس کی وفاداری کو خاطر میں لائے گا۔ یہ ہی وہ نازک اور تکلیف دہ صورتحال ہے جس سے وطن عزیز ان دنوں دوچار ہے۔ وطن کے رہنے والے اپنے اپنے سیاسی پارٹیوں سے دل و جان سے مخلص ہیں لیکن وطن کے لئے ان کے جذبات اور احساسات وہ نہیں ہیں جو کسی کے بھی اپنے مادر وطن سے ہونے چاہئیں۔ یہ ہی وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے یہاں ملک دشمنوں کے لئے کام کرنے والے با آسانی سستے داموں مل جاتے ہیں۔ میں اس کا ذمہ دار کسی بھی ادارے کو نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں اور ان کی بنائی جانے والی حکومتوں کو ٹھہراتا ہوں اگر کوئی ادارہ اپنے حد سے تجاوز کرتا ہے تو اس کا ذمہ دار بھی کوئی اور نہیں بلکہ سیاستدان اور ان کی حکومتیں ہیں اس لئے کہ پاکستان کے آئین میں سب سے سپریم ادارہ تو پارلیمنٹ ہے جو سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ وہ جس طرح کا چاہے قانون بنا لے اور اس پر عمل درآمد بھی کروالے۔ اسے نہ کوئی روکنے والا ہے اور نہ ہی ٹوکنے والا۔ ان کو اپنے اس طاقت کا علم بھی ہے اور یقین ہے جس کا زندہ ثبوت اور مثال اٹھارویں ترمیم ہے ایک اس طرح کی آئینی ترمیم جس کے ذریعے الیکشن اور احتساب کے عمل کو سیاستدانوں نے اپنے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے اس طرح کے قانون سازی کی مثال جمہوری تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ جس میں وفاق کو قانون کے ذریعے کمزور تر کردیا گیا ہے۔ اس قدر وسیع تر اختیارات رکھنے والی پارلیمنٹ جب کبھی اداروں سے متعلق شکایت کرتی ہے تو تکلیف ہوتی ہے کہ انہیں اس طرح کی شکایت کرتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی۔ وہ اپنی دفاع کے لئے تو ہر طرح کی قانون سازی ڈیسک بجا کر کرلیتے ہیں مگر ملک کے فلاح کے لئے کئے جانے والے قانون سازی میں آئین بائیں شاہیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اداروں کی مداخلت یا ان کی سرکشی کے ذمہ دار بھی خود حکومت اور ان کے ذاتی مفادات ہیں اگر حکومت کرنے والے اپنے ذاتی مفادات پر ملکی اور عوامی مفادات کو ترجیح دینے کا سلسلہ شروع کردیں تو پھر کسی بھی ادارے کو اپنے حد کو کراس کرنے کی جرات و ہمت نہیں ہو گی۔ سارے ادارے حکمرانوں کی کمزوری سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میری نظر میں احتساب بھی اداروں سے وابستہ افراد سے پہلے ان سیاستدانوں کا ہونا چاہئے اس لئے کہ وہ قانون بنانے والے ہیں۔ قانون بنانے والوں کا قانون شکن نہیں بلکہ قانون کا پجاری ہونا چاہئے۔ ملک میں قانون کی حکمرانی اور اس کے احترام کو قائم رکھنے کے لئے سب سے پہلے قانون شکنی پر سیاستدانوں کو ہی تخت مشق بنانا چاہئے اس کے بعد ہی لوگ حکومتوں کے بجائے ریاست کی جانب نہ صرف دیکھنا شروع کر دیں گے بلکہ اس سے محبت کرنا اس پر جان نچھاور کرنا بھی شروع کردیں گے۔ میرے نزدیک اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا کوئی غداری نہیں اگر کوئی قوم پرست تنظیم سے تعلق رکھنے والا اپنے علاقے کے رہنے والوں سے کسی ادارے کے زیادتی پر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اس کی بات کو سن کر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اسے حل کر دینا چاہئے۔ نہ کہ اس پر غدار کا لیبل لگا کر اس کی آواز کو ہی دبا دیا جائے اس طرح سے مسائل ختم نہیں ہوتے بلکہ اور بڑھتے ہیں۔ اصل غداری کے مرتکب تو وہ لوگ ہیں جو ملک سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے باوجود اپنی پارٹیوں سے وفاداری کرتے ہوئے مادر وطن کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے ملک خود اپنے رہنے والوں کے لئے بے گانہ بنتا جارہا ہے۔ حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو اس جانب توجہ دینی چاہئے۔ اس وقت ملک کو سب سے زیادہ حب الوطنی یعنی اس سے محبت کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ یہ ملک ہی ہم سب کی پہچان ہے اس لئے اس سے رشتہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں