۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 634

میں ٹھیک، تم غلط /خوشہ چینی

ایک سچا کالم جس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے مگر تنہائی میں بیٹھ کر پڑھئیے گا تو یہ کالم کالم نہیں آئینہ بن جائے گا اور کبھی آئینے میں خود کو دیکھ لینے میں بھی کوئی ہرج نہیں ہے۔ میں نے جب اسے پڑھا تو طبیعت چاہی کہ ”بہنوں کی بھلائی کے لئے اسے مستعار لے کر اپنا فرض ادا کردوں“ مجھ پر پہلی بار سچائی 8 سال کی عمر میں آشکار ہوئی جب میری نانی نے بتایا کہ دنیا ساری گائے کے ایک سینگ پر رکھی ہوئی ہے جب وہ گائے تھک کر دوسرے سینگ پر منتقل کرتی ہے تو زلزلہ آجاتا ہے۔ دوسری سچائی دس سال کی عمر میں حاصل ہوئی جب پتہ چلا کہ ایک پورے کی روئی نما ”بڑھیا“ کے گچھوں کو اللہ میاں کا سلام دے کر بھیجا جائے تو وہ ساتویں آسمان پر جا کر یہ سلام بحفاظت پہنچا آتے ہیں۔ بارہ سال کی عمر میں یہ بھی منکشف ہو گیا کہ اگر کوئی قسم توڑ دی جائے تو اس کا کفارہ صرف اتنا کہہ کر ادا ہو جاتا ہے کہ ”کوٹھے تے مصلہ“ ساڈی قسم لان الا اللہ“ پندرہ سال کا ہونے تک بے شمار کائناتی رازوں پر سے پردہ ہٹ چکا تھا مثلاً ہاتھ سے سرخ مرچیں زمین پر گر جائیں تو قیامت کے دن انہیں پلکوں سے اٹھانا پڑے گا (اس روایت میں اختلاف ہے بعض جگہ نمک مذکور ہوا ہے)۔ رات کو قبرستان کے قریب سے نہیں گزرنا چاہئے کیونکہ چڑیلیں چمٹ جاتی ہیں (اب چونکہ قبرستان بستیوں کے بیچ میں ہیں لہذا چڑیلیں گھر میں ہی چپکی ہوئی ہیں)۔ جنات کے حملے کا خطرہ ہو تو منہ کے اوپر رضائی لے لینی چاہئے (کمبل سے بھی کام چل سکتا ہے)۔ عورتیں کھلے بالوں کے ساتھ چھت پر نہ جائیں ورنہ جنات عاشق ہو جاتے ہیں، (اب جنات سمجھدار ہو گئے ہیں اور یہ کام آدمیوں نے اپنے ذمہ لے لئے ہیں)۔ شام کے وقت جھاڑو نہیں دینا چاہئے ورنہ آمدنی کم ہو جاتی ہے (اب کلینر کا زمانہ ہے اور بیویاں جھاڑو خاوند کی جیب پر پھیر دیتی ہیں) جو عورتیں اپنی آئی برو بنواتی ہیں قیامت کے دن ان کے ماتھوں پر کیلیں ٹھونک دی جائیں گی۔ لاﺅڈ اسپیکر قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے (اس سے بڑھ کر قیامت کیا ہو گی کہ ایک 8 گز کی مسجد کی چھت پر 20، 20 پھونپو چیختے رہتے ہیں)
بارش نہ ہو رہی ہو تو کسی بوڑھی کے سر میں پانی انڈیلنا چاہئے (بارش ہوئی تو پانی ہو گا ورنہ پانی کہاں ہے) جمائی لیتے وقت منہ پر ہاتھ رکھیں تو شیطان اندر چلا جاتا ہے (اب شیطان منہ پر ہاتھ رکھ لیتا ہے کہ انسان اندر نہ چلا جائے) کسی کو لومڑی کے بال مل جائیں تو اسے خارش شروع ہو جاتی ہے (اب لومڑیاں گنجی ہو گئی ہیں وہ وگز لگاتی ہیں) سرخ آندھی جب آتی ہے جب کسی بے گناہ کا خون ہوتا ہے (ہا ہا تو افغانستان، عراق، لیبیا، فلسطین اور کشمیر جیسے مقامات پر تو 24 گھنٹے لال آندھی آتی رہتی ہو گی)۔ جوتی الٹی پڑی ہو تو اس کا مطلب ہے عنقریب سفر درپیش ہے (واہ واہ جوتی نہ ہوئی سفر کا ٹائم ٹیبل ہوگیا) مہمان کو آنا ہو تو دیوار پر کوا بولتا ہے (اسی وجہ سے کوﺅں کا خاتمہ ہو رہا ہے)۔
ایک مدت تک مجھے بہت سی باتوں پر ایمان کی حد تک یقین رہا اگر کوئی مجھ سے اختلاف کرتا تو ٹھن جاتی تھی کہ ایک گھونسہ رسید کرتا تھا۔ ہم سب ایسی ہی باتیں سن کر بڑے ہوئے ہیں۔ ہر شخص اپنے عقیدے پر لگا ہے۔ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ ایک سچا اور کھرا مسلمان وہی ہوتا ہے جو ہم جیسا ہو۔ ہم جیسے نماز پڑھنے والا، روزہ رکھنے والا اور ہم جیسے عقائد رکھنے والا۔ اس معاملہ میں ہمیں یقین ہے کہ سچائی ہم پر آشکار ہو چکی ہے اور دوسرے لوگ تاحال گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ذرا سی بات پر بھی ہم سے اختلاف کرے تو دل چاہتا ہے اس کی تکہ بوٹی کردیں اور اگر بس نہیں چل پاتا تو یہ کہہ کر تسلی دے دیتے ہیں کہ یہ تو ہے ہی دوزخی۔ ایسے میں ہر بات ہمارے منہ سے فیصلے کی طرح نکلتی ہے ہم یہ ماننے تو تیار ہی نہیں ہوتے کہ ہم کوئی غلط بات سوچ اور کرسکتے ہیں اور ایسے میں اگر کوئی ہمیں لاجواب کردے تو پھر ہماری شکل دیکھنے والی ہوتی ہے۔ جواب تو ہوتا نہیں ہے لہذا آواز بلند کرتے ہیں، آنکھیں نکالتے ہیں اور خود ہی اپنی جنت کا اعلان کر دیتے ہیں۔ اگر کسی محفل میں بائیں ہاتھ سے گلاس پکڑ کر پانی پیئں تو ایسے میں لوگ جھٹ آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ پانی دائیں ہاتھ سے پینا چاہئے۔ آپ کھڑے ہو کر پانی پیئں تو آپ کو اطمینان سے آگاہ کرتے ہیں کہ پانی بیٹھ کر پینا چاہئے اور اس دوران اگر آپ انہی کو نصیحت کریں کہ ”قبلہ آپ کو سونے کی انگوٹھی نہیں پہننی چاہئے کہ مرد کو سونا حرام ہے“ تو سمجھ لیں کہ آپ کی تو شامت آگئی، یہ اس وقت سکون سے نہیں بیٹھیں گے جب تک آپ کے دماغ کا بھرکس نہ نکال دیں اسی دوران مختلف روایتوں دلیلوں سے آپ کو یقین دلائیں گے کہ سونا پہننا حرام نہیں ہے ان کے پاس خود کو سچا اور آپ کو جھوٹا ثابت کرنے کی ایک ترکیب ہوتی ہے۔ غصہ، جب یہ غصے میں نہ ہوں تو ہر ایک میں کیڑے نکالتے ہیں جہاں کیڑے نہ نکال سکیں وہاں کیڑے ڈال دیتے ہیں یہ جہاں جہاں خود دین کی پیروی نہیں کرتے اس پر کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ مثالوں سے ثابت کردیں گے کہ ان کی طرز زندگی پر انگلی اٹھانا ایک سخت ترین گناہ ہے ایسے لو ہم میں سے ہوتے ہیں ہماری ہی گلیوں اور محلوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کام دن رات مذہب کو مشکل سے مشکل تر بنانے کا فریضہ سر انجام دینا ہوتا ہے۔ یہ خود کو ہر وقت ہر کام میں استخارہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن جب ان سے پوچھا جائے کہ حضور آپ پھر زندگی میں اتنے ناکام کیوں ہیں تو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔
ایسے ہی ایک نیک کالم نگار زلزلوں کے بارے میں پیشن گوئیاں کرتے رہتے ہیں، کبھی کبھی تو لگتا ہے زلزلہ آنے پر سب سے زیادہ خوشی انہی کو ہوتی ہے، ادھر کوئیزلزلہ آیا ادھر وہ ٹی وی پر نمودار ہوئے اور بڑی متانت سے زلزے کی وجوہات بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں (نانی اماں ہمیں پہلے ہی بتا چکی ہیں زلزلہ کیوں آتا ہے) مگر ان بزرگ سے کوئی اختلاف کرلیں تو سمجھ لیجئے گا کہ ایک اور زلزلہ آگیا۔ ہم میں سے ہر شخص سچا ہے کیونکہ ہماری تحقیق اپنے ہی فرقے اور اپنی سوچ کے مطابق رہی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص خود کو پرفیکشنسٹ مسلمان کہنے پر مصر ہے۔ پھر بھی کہیں ”مسلمان“ نظر نہیں آتا اگر کسی کا دادا بہت اچھا مکینک تھا تو اس کا پوتا محض دادا کی بنیاد پر تو اچھا مکینک نہیں بن سکتا، بلکہ اس کو خود کو اچھا مکینک ثابت کرنا ہوگا (پدرم سلطان بود) ہمیں بھی اپنے بزرگوں پر فخر ہے کہ بہت اچھے مسلمان تھے، بھئی ہونگے ہم خود کیا ہیں؟ دنیا کسی کو ماضی کے حوالے سے یاد نہیں رکھتی اگر آپ زندہ ہیں تو آپ کا پیمانہ حال ہے، ماضی نہیں۔ آپ نے سنا ہوگا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یورپ سے اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنا کر اپنا آپ سدھار لیا تو قبلہ آپ کو کس نے روکا ہے کہ آپ بھی ان پر عمل پیرا ہو کر ان جیسے بن جائیں۔ آپ کو تو یہ اصول ازبر ہیں آپ کیوں ان پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ کیا مغرب والے آپ سے زبردستی یہ اصول چھین کر لے گئے ہیں۔ ہم میں سے اب ہر شخص یہی رونا رو رہا ہے کہ اب مسلمانوں کا کیا بنے گا؟ یہی وہ سوچ ہے جس نے ہمارے پاﺅں میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں۔ ہم نہ کھلے ذہن سے کوئی بات کرتے ہیں، نہ سنتے ہیں۔ ہمیں بس اپنے جیسے لوگوں میں بیٹھ کر ہی واہ واہ سننے میں مزہ ملتا ہے۔ ہر فرقے کا فرد آپس میں مل بیٹھتے ہیں، اپنی اچھائیاں اور دوسروں کی برائیاں بیان کرتے ہیں۔ داد و عش سمیٹے ہیں اور اطیمینان سے گھر جا کر سو جاتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔ (گل نوخیر اختر)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں