۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 422

پول کھلنے لگی

یہ قانون قدرت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، یہ اسی طرح کارخانہ قدرت میں عمل جاری و ساری ہے اور ابد تک رہے گا۔ لاکھ مردوں کو زندہ کہتے رہیں مگر یہ ایک احمقانہ تصور ہے جو گزر گیا وہ گزر گیا مگر کچھ مردہ پرست عناصر محض اپنے ذاتی مفاد کے تحت مردوں کو کاندھوں پر اٹھائے ہوئے زندوں کو احمق بنائے رکھنے پر مصر رہتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ ہم اپنی زندگی میں دیکھتے رہتے ہیں، لاتعداد مزارات اس کے شاہد ہیں کہ کس طرح مردوں کو تجارت کا ذریعہ بنا کر اور طرح طرح سے ڈھونگ رچا کر لوگ خود کو زندہ رکھنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ یہی حال ہماری سیاست کا بھی ہے کہ ”پدرم سلطان بود“ کا نعرہ لگاتے ہوئے نا اہل بدکردار اور کھوکھلے افراد اپنے دوزخ کو بھرنے کے لئے گشتگان کو استعمال کررہے ہیں۔ موجودہ دور میں نظر دوڑائیں تو سندھ کی ایک تنگ نظر اور متعصبانہ مزاج کی سیاسی پارٹی اس کی زندہ مثال ہے جس کی ابتداءمیں ذاتی مفادات، حصول اقتدار، منافرت اور لالچ پر پڑی تھی، فسطائی خیالات پر مبنی اس سیاسی جماعت کا بانی جس کا ماضی داغدار اور جس نے محسن کشی کرتے ہوئے اپنے محسن اعظم جسے وہ ڈیڈی کہتا تھا سے غداری کرکے اور ایک بدکردار قومی جنرل سے گٹھ جوڑ کر کے ملک کو محض خود کو اقتدار میں لانے کے لئے دولخت کیا اور عوام کو ”روٹی، کپڑا اور مکان“ کا لالچ دے کر اقتدار پر قبضہ کیا اور اس کے بعد خود اپنے ان ساتھیوں کو دودھ میں مکھن کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا جنہوں نے اسے اقتدار تک پہنچایا تھا۔
اس ک ےبعد اس کی بیٹی نے اس کے اصولوں پر روبہ عمل ہوتے ہوئے ملک میں ایک ایسے معاشرے کو جنم دیا جہاں لوٹ مار، کرپشن، سندھ کارڈ اور ایک مخصوص قوم کے سوا سب کے حق مارنے کا سلسلہ جاری کیا گیا، یہی نہیں بلکہ اس کے شوہر نے لوٹ مار کا جو ریکارڈ قائم کیا وہ بھی ایک تاریخ بن گیا اور پھر خود اسی کے دور اقتدار میں اس کے بھائی کا برسر عام قتل اور پھر خود اس کے قتل پر منتج ہوا۔ یہی نہیں بلکہ اسی پارٹی اور اس کے مرنے والوں کے نام لے لے کر وہ عفریت اقتدار میں آیا جس نے اس ملک اور قوم کو قہر مذلت کے آخری کنارے تک پہنچا دیا۔ وہ سندھ اور سندھیوں کے نام لے لے کر اپنے مفادات حاصل کرتا رہا اور آخرکار اس کی جعلی اور ہوس دولت نے اسے پکڑ میں لے لیا اور پھر لوگوں کی سمجھ میں آیا کہ وہ کس جعلساز کے شکنجے میں آگئے تھے۔ آہستہ آہستہ اس کے اوپر سے ملمع اترنا شروع ہو گیا اور وہ پارٹی جس کا نام لے لے کر اس نے اقتدار پر جعل سازی سے قبضہ کیا تھا اور پھر اپنی اولاد کو اس پر مسلط کرنا چاہتا تھا اس کا بھانڈا بھی پھوٹ گیا اور اب وہ وقت بھی آگیا کہ وہ شہر جسے انہوں ن ے ”اپنے“ نام نہاد شہیدوں کی زیارت گاہ بنا رکھا تھا اور اپنی سیاست کا سب سے بڑا ”کارپوریٹ“ کا مرکز سمجھا تھا ان کی تباہی کی ابتداءبھی وہیں سے ہوئی تھی جہاں ”الذوالفقار“ سے پیپلزپارٹی کی ابتداءہوئی تھی جس میں ان کے قائد بھٹو نے اپنے ڈیڈی ایوب خان کی قد آدم تصویر لگا رکھی تھی، جس سے غداری کرکے حصول اقتدار کی راہ ہموار کی تھی، وہیں سے اس پارٹی کو زوال شروع ہوا یعنی ”بھٹو اب زندہ نہیں ہے“ کی حقیقت ظاہر ہوئی۔ لاڑکانہ کے اہم شہر کی اہم نشست پر پیپلزپارٹی کو ”جی ڈی اے“ کے امیدوار معظم عباسی نے جس کا خاندان 1960ءسے پیپلزپارٹی سے وابستہ تھا جس کی دادی بیگم اشرف عباسی نے بھٹو کے کہنے پر 1962ءمیں مغربی پاکستان اسمبلی کا الیکشن لڑا اور منتخب ہوئی اور 1965ءتک اس کی ممبر رہیں بعدازاں بھٹو کے کہنے پر ہی مستعفی ہوئیں۔ 1967ءمیں پیپلزپارتی کی بنیاد رکھتے وقت پہلی میٹنگ بھی بیگم اشرف عباسی کے گھر پر ہی ہوئی تھی اور پی پی پی کے بنیادی ممبران میں سے ایک تھیں۔ بھٹو انہیں بہن کہہ کر پکارتا تھا۔
1971ءمیں جب بھٹو نے اقتدار سنبھالا اور صدر بنا تو بیگم اشرف عباسی کو خواتین کی خصوصی نشست پر منتخب کرایا اور وہ 11 اگست 1973ءسے جنرل ضیاءالحق کے اقتدار میں آنے تک یعنی 1877ءتک ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی رہیں۔ جس کے بعد پیپلزپارٹی اقتدار سے رہی۔ بیگم اشرف عباسی اور ان کے بیٹے حاجی منور عباسی متعدد بار قید و بند کی صعبتوں سے گزرے مگر متعدد بار آزمائشوں کے باوجود ماں اور بیٹوں کی پیپلزپارٹی سے وفاداری میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حاجی منور عباسی لاڑکانہ جیل، سینٹرل جیل سکھر، سینٹرل جیل مچھ اور لانڈھی جیلوں میں مقید رہے اس کے باوجود آخری دم سے پیپلزپارٹی سے وفادار رہے۔
حاجی منور عباسی 1988ءسے لاڑکانہ کی وارہ والی نشست سے صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے رہے اور 6 مرتبہ کامیاب ہوئے۔ ایک مرتبہ بے نظیر کے کہنے پر اس کے بھائی اور بھٹو کے بڑے بیٹے مرتضی بھٹو نب ان کے مقابلے پر الیکشن لڑا مگر وہ بھی ان سے شکست کھا گیا۔ تاہم وہ بے نظیر بھٹو سے بھی اس کے باپ کی طرح عقیدت رکھتے تھے۔
1988ءمیں بے نظیر کی پاکستان واپسی کے بعد بیگم اشرف عباسی ان کی قریب ترین اتالیق بن گئیں اور نصرت بھٹو کے کہنے پر وہ بے نظیر کی حفاظتی ڈھال بن گئیں، وہ بے نظیر کو بالکل اپنی بیٹی کی طرح چاہتی تھیں انہوں نے ہی ناہید خان کو بے نظیر کی محافظ بنانے کی سفارش کی تھی۔ بعدازاں ناہید خان نے بیگم اشرف عباسی کے دوسرے بیٹے ڈاکٹر صفدر عباسی کو ہی اپنا شریک سفر بنایا۔ ان تمام خدمات کے باوجود بے نظیر کے شوہر آصف زرداری نے پیپلزپارٹی پر قبضہ کرکے اس پورے خاندان کو پارٹی سے بے دخل کردیا اور ان کی راہ میں کانٹے بودیئے۔ بے نظیر نے ڈاکٹر صفدر عباسی کو سینیٹر بنایا بلکہ ناہید خان کو پولیٹیکل سیکریٹری کی حیثیت سے اچھے قابل اعتماد ساتھیوں میں شامل کیا تھا۔ 2013ءکے انتخابات میں اس خاندان کا کوئی خاص کردار دیکھنے میں نہیں آیا کیونکہ اب پارٹی پر آصف زرداری قابض ہو چکا تھا۔ جو بے نظیر بھٹو کے تمام قریبی افراد کو ختم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ خصوصاً ناہید خان اور ان کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی کو۔
2018ءکے انتخابات میں معظم عباسی نے جے یو آئی کے راشد سومرو سے اتحاد کرکے انتخاب لڑا جس میں راشد سومرو بلاول بھٹو سے معمولی فرق سے ہار گیا جب کہ معظم عباسی پی پی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کی بیٹی ندا کھوڑو کو بھاری ووٹوں سے ہرا کر کامیاب ہوئے تھی۔ بعدازاں ندا کھوڑو اور ان کی پارٹی کی جانب سے معظم عباسی کے اثاثے مکمل ظاہر نہ کرنے پر الیکشن ٹریبونل میں اپیل دائر کرکے دوبارہ الیکشن کرانے پر کامیاب ہو گئیں مگر اس مرتبہ بھی جے یو آئی اور عباسی اتحاد نے بلاول بھٹو کے سیکریٹری جمیل سومرو کو شکست سے دوچار کردیا۔ اس طرح جی ڈی اے نے بظاہر اپنی کھوئی ہوئی نشست دوبارہ حاصل کرلی۔ لیکن اس سے ظاہر ہوا کہ عوام کا رویہ تبدیل ہو رہا ہے اس کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کے گھر کے بالکل سامنے قائم پولنگ اسٹیشن نمبر 58 میں بھی پی پی کے امیدوار کو 265 اور معظم عباسی کو 310 ووٹ ملے ہیں۔ اس طرح وہ پیپلزپارٹی کے صدر کے عین گھر کے سامنے پیپلزپارٹی کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔ واضح رہے کہ معظم عباسی کے والد حاجی منور عباسی لاڑکانہ میونسپل کمیٹی کے چیئرمین ایک طویل عرصے تک رہے اور لاڑکانہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ جسے لارکانہ کے عوام آج تک نہیں بھولے جب کہ پیپلزپارٹی کا نام نہاد چیئرمین آصف زرداری لاڑکانہ کے نام پر 113 ارب روپیہ ڈکار گیا اور اسے دوسرا موہنجو ڈارو بنا دیا ہے۔ اب عوام پر اس کا پول کھل چکا ہے اور لاڑکانہ اس کی ابتداءہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں