۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 541

کتوں کے نرغے میں۔۔۔

مشہور و معروف شکاری جم کاربٹ نے اپنے تجربات میں تحریر کیا ہے کہ جب شیر کو جنگلی کتے چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ اب نرغے میں آگیا ہے تو پھر زور زور سے بھونکتے ہوئے اس کے گرد چکر لگانا شروع کردیتے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنا گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ ان کا شکار بدحواس ہوگیا اور تھک گیا ہے تو پھر کوئی آگے سے کوئی پیچھے سے اس پر حملے شروع کر دیتے ہیں اور پھر ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ شیر زمین پر گر گیا ہے تو اس پر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑتے ہیں، آہستہ آہستہ شیر اپنے ہوش و ہواس کھو بیٹھتا ہے اور پھر کتنے سے اپنے پنجوں اور دانتوں سے بھنبھوڑنا شروع کردیتے ہیں اور اس طرح جنگل کا بادشاہ کتوں کے ہاتھوں دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
یہ ایک عبرت کا مقام ہے کہ ایک جنگل کا حکمراں کتوں کے ہاتھوں عبرت ناک انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ آج اگر آپ پاکستانی سیاست پر غور کریں تو بالکل یہی جنگل کا ڈرامہ وہاں بھی کھیلا جارہا ہے۔ آج سیاست کے جنگل میں چاروں طرف سے ایک شخص پر یلغار ہو رہی ہے، چاروں طرف سے اس پر حملے ہو رہے ہیں، وہ چھوٹے چھوٹے ”یکے“ جن کی اوقات دو دو ٹکے کی بھی نہیں تھی اس ایک شخص کی بدولت ایسے مقام پر ہے کہ جس کا تصور بھی وہ نہیں کر سکتے تھے۔ مگر ان کی اوقات سے بڑھ کر جو چیز انہیں مل گئی ہے وہ ان میں سمائی نہیں ہے اور وہ کم ظرفی کی اعلیٰ منزل پر فائز ہو گئے ہیں۔ وہ ایسی ایسی حرکتیں کررہے ہیں جن کی ان ہی جیسے کم ظرفوں سے توقع کی جاتی تھی۔ یہ اقتدار کے بھوکے اور دولت سے پرستار جو مقاصد لے کر آئے تھے وہ پورے نہیں ہو رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ مخالف جماعتوں کے مخبر بنے ہوئے ہیں۔ اہم فیصلوں کی اطلاع بڑوں تک پہنچانا ان کا کام ہے اور پھر میڈیا کے ذریعہ اپنے ہی لیڈر کی کردار کشی کرانا اور اس طرح سے بلیک میل کرنے کی کوشش کرنا ہی ان کا مقصد ہے۔ انہیں علم ہے کہ موجودہ حکومت پارلیمنٹ میں دوتہائی کی اکثریت نہیں رکھتی لہذا وہ اپنی قیمت وصول کرنے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں ادھر وہ سیاسی جماعتیں جو حکومت میں شامل ہیں بلیک میلنگ کا موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں اور کبھی بھی کوئی کٹھن مرحلہ آتا ہے وہ علیحدہ ہونے کی دھمکیاں دے کر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ بلوچستان اور کراچی کی جماعتیں اس کی واضح مثال ہیں جو بات بات پر اپنا راستہ علیحدہ کرنے کی دھمکیاں دیتی رہتی ہیں اور اپنا مطلب نکالتی رہتی ہیں ادھر سرمایہ دار اپنا ناجائز سرمایہ بچانے کے لئے حکومت کی کسی بھی پالیسی کو ماننے کو تیار نہیں ہے یہ افراد نہ ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی حکومت کی ان اسکیموں پر عمل پیرا ہونے کو تیار ہیں جس سے سرمایہ کاری کی فضا سازگار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ بے یقینی کا شکار ہے۔ ڈالر کی قیمت آسمان کو جاری ہے اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کی سطح روز بروز بلند ہو رہی ہے۔ صنعت کار اپنی اپنی ضد پر اترے ہوئے ہیں وہ برآمداتی پالیسی پر ناک بھون چڑھا رہے ہیں، یہ راتوں رات کروڑوں اربوں کمانے کی ہوس میں حکومت کی طویل مدتی پالیسی کو تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اس طرح ملک کی ادائیگیوں کا توازن بگڑ رہا ہے۔
بیوروکریسی تو اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ گزشتہ سیاسی حکومتوں نے زرخرید یہ سرخ فیتے والے حکومت کی کسی پالیسی کو کامیاب نہ کرنے کی قسم کھائے ہوئے ہیں۔ یہ افراد جو کہ آج تک سب اچھا کا نعرہ لگا کر خود کو ہی ہر اچھی بات کے لئے کریڈٹ لیتے تھے آج بھی توقع کررہے ہیں کہ نئی حکومت ان کی نظروں سے دیکھے اور ان کی ہی کہی ہوئی باتوں پر عمل کرے اور اگر یہ نہں ہوتا تو وہ حکومت کو چلنے نہیں دیں گے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کے زرخرید سرکاری افسران اس بات کا تہیہ کرچکے ہیں کہ وفاقی پالیسیوں کو کسی قیمت پر صوبے میں نہیں چلنے دیں گے۔ یہ وہ افسر شاہی ہے جسے بھٹو کے دور میں بھرتی کیا گیا ہے اور پیپلزپارٹی کے ساتھ ہی ان کا جینا اور مرنا ہے۔ ادھر عدلیہ میں ایسے لوگ بھرے ہوئے ہیں جنہیں صرف اور صرف پارٹی سے وفاداری کی بنیاد پر بھرتی کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی، لوٹ مار اور ملکی خزانے کو لوٹنے والوں کی عدالتوں سے ضماتیں ہو جاتی ہیں۔ ادھر جیل خانہ میں جو پیپلزپارٹی سے وفاداروں سے بھرے ہوئے ہیں وہ ایسے مجرموں کو گھر جیسے عیش و آرام مہیا کرنے میں مگن ہیں جب کہ پولیس تو ہے ہی ان کے غنڈے، بدمعاشوں اور ڈاکوﺅں پر مشتمل ان کے ذریعہ انہوں نے اپنے مخالفین کی درگت بنا رکھی ہے۔ وفاق کے اعلان کردہ کسی بھی ہدایت پر عمل نہ کرنے کی ان افراد نے قسم کھا رکھی ہے۔
یہی صورت حال پنجاب کی بھی ہے جہاں نواز دور میں صرف اور صرف اپنے من پسند اور وفادار افراد کو عدلیہ اور نوکرشاہی میں بھرا گیا ہے۔ آج وہ اپنا حق نمک ادا کرنے میں مصروف ہیں اور حکومت کو ناکام بنا کر اپنی وفاداری کا ثبوت دے رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومت میں شامل کالی بھیڑیں اپنا گندہ کردار ادا کررہی ہیں اور اپنے افعال و کردار سے عوام میں حکومت کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا کررہی ہیں۔ اقربا پروری، ناجائز ذرائع سے دولت کا حصول اور خلاف قانون کام کرکے عوام میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ حکومت بھی گزشتہ حکومتوں سے مختلف نہیں ہے بلکہ یہ کہ اس حکومت کے دور میں عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور بے چینی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ امید اور نا امیدی میں بدل گئی ہے جو عوام نے اس حکومت سے باندھی تھی اور اب شیر اپنے کھچار میں اکیلا ہی سارے کتوں کے نرغے میں گھرا ہوا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں