نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 585

کشمکش ۔۔۔۔

ایک طرف اختیار اور حکومت کا کھیل چل رہا ہے تو دوسری جانب اپوزیشن کی بلیک میلنگ اور ان کی اپنی بقاءکی کشمکش چل رہی ہے ان سب کے درمیان ریاست پاکستان اپنی سالمیت کو برقرار رکھتے ہوئے کشمیر کے لئے دنیا بھر میں آہ و پکار کررہا ہے۔ ریاست کو خود کو منوانے اور اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے بیک وقت کہیں محاذوں پر جنگ کرنا پڑ رہی ہے۔ ان میں سے بعض جنگیں تو نظر آرہی ہیں لیکن بعض نظروں سے اوجھل ہونے کے باوجود سمندر کی گہرائیوں میں اٹھنے والی موجوں کے مصداق لڑائی جارہی ہے جس سے عام عوام سے زیادہ وہی ولگ واقف ہیں جو اس جنگ کے زد میں آرہے ہیں۔ کراچی میں کچرا اور اس کے گرد گھومنے والی سیاست بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں بلیک میلنگ کی انتہا دیکھیئے کہ معاملہ کو سندھ یا کراچی کی علیحدگی تک پہنچا دیا گیا ہے۔ جس کچرے پر بلدیہ صوبہ اور وفاق تینوں مل کر سیاست کررہے ہیں نہ تو اس کے بُو اور تعفّن میں کوئی کمی آئی ہے اور نہ ہی اسے کوئی اپنا مستقل ٹھکانہ ملا ہے، وہ تاحال روشنیوں کے شہر کراچی اور اس کے رہنے والوں کے لئے پریشانی اور بدنامی کا باعث بنا ہوا ہے لیکن اس پر کئے جانے والے سیاست میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں مذہب کارڈ کے ذریعے حکومت کے کرپشن مہم کو سبوتاژ کرکے اس کی زد میں آنے والے مذہبی اور لبرل سیاستدانوں کو بچانے کے لئے آکری کوششیں کررہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان جو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کرچکے ہیں ان کے اس مارچ میں گرچہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں، پی پی پی اور مسلم لیگ ن کھل کر حمایت کرنے کا اعلان تاحال نہیں کرسکی ہے لیکن مولانا یہ مارچ خود اپنے بقاءکے لئے ہر حال میں کرنا چاہ رہے ہیں اس لئے کہ احتساب کے زد میں خود مولانا اور ان کی جماعت بھی آرہی ہے جن کے کرپشن کے ناقابل تردید شواہد نیب کے ہاتھ لگ چکے ہیں جس کا علم خود مولانا کو بھی ہے اس وجہ سے انہیں اپنی گرفتاری کا اتنا ہی یقین ہو چکا ہے جتنا کسی کو دن کی روشنی کو دیکھ کر دن ہونے کا یقین ہوتا ہے اس وجہ سے مولانا کی اب یہ کوشش اور حکمت عملی ہے کہ وہ نیب کے بجائے پولیس رینجرز یا پھر فوج کے ہاتھوں مارچ کرتے ہوئے سول نافرمانی کے الزام میں گرفتار ہو کر جیل چلے جائیں یا نظر بند کردیئے جائیں اس طرح سے ان کے ثابت شدہ کرپشن کے مقدمات با آسانی سیاست زدہ ہو جائیں گے۔ مولانا کی اس حکمت عملی یا دوسرے معنوں میں اس چالاکی اور مکاری کا ادراک انہیں بھی ہیں جو ان کے کرتوت بے نقاب کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ انہیں اس طرح کی صورتحال میں مشکل اور پریشانی پیش آرہی ہے۔ پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ ریاست مختلف محاذوں پر جنگ لڑ رہی ہے جن میں سے ایک یہ بھی ان جنگجوﺅں کا مقصد ریاست کو اپنے اصل جنگ سے روکنے کے لئے مشکلات پیدا کرنا ہے تاکہ وہ کرپٹ زدہ عناصر کے خلاف کارروائی میں نرمی برتتے اور انہیں نظر انداز کرکے ملکی معاملات کو چلانے کی کوشش کرے۔ کالم کی ابتداءمیں لکھ چکا ہوں، اختیار اور حکومت کی چپقلش کے بارے میں۔۔۔ تو وہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس بارے میں بھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی کہ حکومت کون کررہا ہے۔۔۔؟ اور اختیارات کس کے استعمال ہو رہے ہیں۔ اس بارے میں سیاستدان اور ان کے حمایت یافتہ صحافی جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر بھی آنکھ بند کرکے یقین نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ وہ تو حکومت وقت کو بلیک میل کرنے کے لئے اس طرح کی بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے الزامات کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اختیار اور حکومت کا مسئلہ تو اپنی جگہ موجود ہے لیکن کیا اس سے ریاست کے امور میں کوئی دشواری یا پریشانی پیدا ہو رہی ہے۔ یا نہیں، سوچنے والی بات یہ ہے اگر ریاستی امور اس سے مزید بہتر ہو رہے ہیں تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ اس اختیارات کے اتحاد اور اتفاق سے ریاست ایک کے بجائے ایک اور ایک گیارہ کی طاقت سے دشمنوں سے نبردآزما ہو چکی ہے جس کے مظاہر بھارت کے سب سے زیادہ مصروف اور مضبوط ترین وزیر اعظم نریندر مودی کا پاکستان کی بہترین خارجہ پالیسی کی وجہ سے دنیا بھر میں نفرت اور دہشت کی علامت ”ہٹلر“ کے طور پر متعارف ہوتا ہے۔ میری ناقص رائے میں تو مودی کے ہٹلر کے طور پر متعارف کروانے اور امریکی صدر ٹرمپ کے تین بار کشمیر کے تنازعے پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کرنا ہی پاکستان کی سب سے بڑی جیت ہے اور بھارت کے اس معاملے کو اس کا اندرونی معاملہ قرار دینے کو دنیا کا یکسر مسترد کرنا، بھارت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے اپوزیشن پارٹیوں کو اب نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے، انہیں ملک کو اپنے ذات پر مقدم خیال کرنا چاہئے اور حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے۔ جس نے جو کیا ہے اسے اس کا حساب دینا چاہئے۔ سوال پوچھنے کے بجائے جواب دینے کی عادت اختیار کر لیتی چاہئے اور میڈیا کو بھی اپنے فیصلے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر وسیع تر قومی مفاد میں کرنے چاہئے اس لئے کہ ریاست پاکستان اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے اندر اور باہر کے تمام دشمن ایک ایک کرکے بے نقاب ہو چکے ہیں ان کی سرگرمیاں مانیٹر کی جارہی ہیں۔ میڈیا کے رابطے بھی ریڈار پر آچکے ہیں۔ اختیار رکھنے والوں سے اتنی سی گزارش ہے کہ اپنے اصل ہدف کو ہر طرح کے نقصان سے بچانے کے لئے دوسرے محاذوں پر دو قدم آگے بڑھنے اور دو قدم پیچھے ہٹنے کی پالیسی اپنائی جائے مگر آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے۔ یہ ہی ایک نئے اور بدلتے ہوئے پاکستان کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں