۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 301

۔۔۔ بڑی غلطی ہو گئی (قند مکرّر)

یہ ایک اپنی آنکھوں دیکھی اور اپنے کانوں سنی بات ہے جو اس وقت کو سمجھ میں نہیں آئی مگر آج روز روشن کی طرح صاف اور واضح ہمارا تعلق بعداز ہجرت ہندوستان سکھر (سندھ) سے ہے۔ جہاں عمر کے 52 سال گزارے اور بہت زبردست گزارے، آج ہم نے جو کچھ حاصل کیا وہیں سے حاصل کیا۔ ہمارے علاقہ پرانا سکھر میں مظفر نگر کی ایک عظیم شخصیت سید حسن میاں وکیل علاقے کے معتبر نام تھے۔ لیاقت علی خاں وزیر اعظم پاکستان کے دوست اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے ساتھ علی گڑھ میں پڑھے ہوئے ان کے صاحبزادے مہدی میاں ہمارے دوست تھے۔ میاں کے یہاں ایک مرتبہ راجہ صاحب محمود آباد جو قائد اعظم کے معتمد اور تحریک پاکستان کے صف اول کے راہنما تھے اور پاکستان کی تحریک آزادی میں اور ہندوستان میں انتہائی اہمیت کے حامل جن کا خاندان صدیوں سے سیاست میں اہم مقام رکھتا تھا اور ہندو راہنما بھی ان کی بہت عزت کرتے تھے مگر راجہ صاحب مسلم لیگ کے ساتھ قائد اعظم سے بھی عقیدت رکھتے تھے اور ان کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کرتے رہے تھے اور پاکستان بننے کے بعد مالی طور پر بھی ہر طرح سے پیش پیش رہے تو یہی راجہ صاحب جب سکھر تشریف لائے اور ان کے اعزاز میں حسن میاں صاحب نے دعوت کا اہتمام کیا جس میں انوع اقسام کی نعمتیں موجود تھیں مگر ایک ریاست کے حکمران راجہ صاحب کا کھانا روٹی وہ بھی ج±و کی اور چولائی (ایک قسم کا ساگ جو غریب غرباءکا سالن ہوتا تھا) کی بھیجنا تھا کیونکہ یہی ان کا معمول تھا۔ اس موقعہ پر ایک کمرے میں راجہ صاحب اور حسن میاںدونوں باتیں کررہے تھے اس وقت ہم اور مہدی یہاں بھی خدمت کے لئے موجود تھے تو ہمارے کانوں میں ایک فقرہ پڑا جو راجہ صاحب حسن میاں سے دوران گفتگو کہہ رہے تھے کہ ”میاں ہم سے بڑی غلطی ہو گئی“ اس وقت تو یہ جملہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا مگر بعد میں جب ملک کے حالات ناگفتہ بہ ہو گئے اور اقتدار کی جنگ میں وہ عناصر بڑھ چڑھ کر جنگ و جدل میں مصروف ہو گئے اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوا اور تحریک آزادی میں قائد اعظم کے عظیم ساتھی سردار عبدالرب نشتر نے یہ شعر پڑھا کہ
نیرنگئی سیاست دوران تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
اور راجہ صاحب محمود آباد پاکستان کے حالات دیکھ کر اور مایوس ہو کر لندن سدھار گئے جہاں وہ ایک کمرے کے فلیٹ میں زندگی گزار کر اور لندن میں اسلامی سینٹر قائم کرکے انتقال کر گئے تو طویل مدت کے بعد ان کے اس تاریخی فقرے کا مطلب ہماری سمجھ میں آیا کہ محترمہ قرة العین حیدر نے اپنے سوانحی ناول ”کارجہاں دراز ہے“ میں راجہ صاحب محمود آباد سے ایک ملاقات کا احوال لکھا کہ راجہ صاحب قرة العین حیدر کے والد سجاد حیدر پلوام کے انتہائی قریبی دوستوں میں سے تھے۔ انہوں نے لکھا کہ انہوں نے راجہ صاحب سے پاکستان سے مراجعت کرنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ جب انہوں (راجہ صاحب نے) قائد اعظم سے پوچھا کہ پاکستان کا نظام حکومت کیا ہوگا اور حکمران کیسے ہوں گے؟ تو جناح صاحب نے الٹا سوال کیا کہ آپ بتائیے کہ کیسے حکمران ہونے چاہئیں اس پر راجہ صاحب نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حخمران ایک صاحب پابند صوم و صلاة ایماندار، عادل اور عوام دوست ہونا چاہئے جس پر جناح صاحب نے کہا کہ یہ تو آپ نے ایک شیعہ حکمران کی تعریف نہیں کردی جب کہ پاکستان کا نظام ایک آزاد معاشرہ، مذہب ریاست کا نہیں بلکہ ہر مذہب والے کے لئے کھلا ہوا اور سب کے حقوق مساوی ہوں گے۔ راجہ صاحب نے قرة العین حیدر سے کہا کہ اس دن مجھے احساس ہوا کہ جناح صاحب اور میرے خیالات میں ایک وسیع خلیج حامل ہے تو میں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔
ان حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایک راجہ صاحب پر ہی کیا تحریک پاکستان کے صف اوّل کے تقریباً تمام راہنما ہی آہستہ آہستہ پس منظر میں چلے گئے جن میں راجہ غضنفر علی خان، سردار عبدالرب نشتر، ابراہیم اسماعیل چندریگر، ایم ایم اصفہانی، چوہدری خلیق الزماں، حسین شہید سہروردی، فضل الحق، خواجہ ناظم الدین، جی ایم سید اور بے شمار وہ لوگ جنہوں نے پاکستان کو ایک مثالی ریاست بنانے کے لئے اپنی زندگیاں صرف کردیں مگر پھر قائد اعظم کا انتقال اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جن طالع آزماﺅں نے ملک پر قبضہ کیا اور بنیادی اصولوں کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات اور اقتدار کے حصول کی جنگ کو شروع کیا اس کا نتیجہ آج کے پاکستان میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آن ان کی اولادیں ان کے کردار کی آئینہ دار ہیں ایک انگریزوں کا کاسہ لیس اور ریاست جونا گڑھ کی ریاست کا پاکستان سے الحاق کے فیصلے کی مخبری کرنے والا اس وقت ریاست کا دیوان جسے انگریزوں نے ”سر“ کا خطاب دیا تھا شاہنواز بھٹو کا آوارہ بیٹا جو بمبئی کی فلمی دنیا میں ایک اوباش نوجوان کے طور پر جانا جاتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے حصول اقتدار کے لئے اپنے منہ بولے باپ فیلڈ مارشل ایوب خان سے غداری کرکے جسے وہ ڈیڈی کہتا تھا پاکستان کو دولخت کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا اور معاہدہ تاشقند پر جھوٹے الزامات لگا کر ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کی اس سے قبل اسی ”ناخلف“ بیٹے نے ایوب خان کے محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان الیکشن کے موقعہ پر محترمہ پر انتہائی نازیبا الزامات لگائے اور انہیں غدار کے لقب سے پکارا اور اس کے بعد اس نے عوام کو ”روٹی، کپڑا اور مکان“ کا نعرہ لگا کر اور سبز باغ دکھا کر ورغلایا اور اقتدار حاصل کیا اور بعدازاں جنرل یحییٰ خان کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازش محض اپنا اقتدار حاصل کرنے کے لئے شروع کیا جس کا اختتام اس نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں پولینڈ کی جنگ بندی کی قرارداد کو پھاڑ کردیا اور پاکستان آکر ”ادھر تم ادھر ہم“ کا نعرہ لگا کر پاکستان کی 56 فیصد آباد کو جس نے انتخابات میں اکثریت حاصل کی تھی کو الگ کرنے کی بنیاد رکھ دی جس کے باعث لاکھوں افراد قتل ہوئے اور 90 ہزار فوجی بھارت سے شکست کھانے کے بعد قیدی بنا لیے گئے۔ یہ ابتداءتھی ان حالات کی جس کے بعد اس ملک کی تقدیر طالع آزماﺅں کے ہاتھ میں آگئی اور آج تک اس کا خمیازہ اس ملک کے 22 کروڑ عوام بھگت رہے ہیں۔
اعتداز: اس عنوان سے شائع ہونے والا کالم غلطی سے ایک کالم جو اس سے قبل شائع ہو چکا ہے ”غٹاغٹ پی جاﺅ“ سے گڈ مڈ ہو کر لایعنی ہو گیا ہے لہذا نصف قندمکرر کے طور پر پھر حاضر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں