۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 682

۔۔۔ تو کراچی صوبہ کیوں نہیں؟ (1)

اب تو حزب اختلاف کے ”دھلے دھلائے“ اور پاک صاف شیرزادے بھی نئے صوبوں کے قیام کے درد میں تڑپ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب اور بہاولپور کو صبے بنانے کے سلسلے میں وہ اپنے اس حریف کے ساتھ غیر مشروط طور پر حمایت کرنے کے لئے تیار ہیں جس کا نام سننے سے ان کے ایمان میں خلل پڑ جاتا تھا۔ یہ پیش کش اگر ان علاقوں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتی تو کیا کہنے مگر تین مرتبہ ”ن“ لیگ حکمرانی کے دور میں ان کا خیال کیوں نہ آیا اب جب کہ عمران خان نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا اعلان کیا تو ان کے پیٹ میں مروڑ ہورہی ہے۔ یہ اقتدار سے محروم ہو کر ایک مجرم اور خائن کے دستر خوان کی مکھیاں تھے اب بھی حق وفاداری ادا کررہے ہیں کیونکہ ان کی روزی روٹی کا معاملہ ہے اس حکمران نے کبھی بھی اس طرز پر سوچنے کی تکلیف گوارہ نہیں کی کہ عوام کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں ان کے بھی مسائل ہوتے ہیں انہں صرف اور صرف پنجاب نظر آتا تھا وہ بھی وہ پنجاب جو ان کا پایہ تخت تھا۔ انہوں نے ملکی خزانے کے اربوں کھربوں روپیہ لاہور اور صرف لاہور پر لگائے انہوں نے اورنج ٹرین کے نام پر جو سفید ہاتھی پالا تھا جس کے لئے اربوں ڈالر قرض لئے جس کے ذریعہ کروڑہا ڈالر اپنی جیبوں میں ڈالے اور اب بھی اس نامکمل منصوبے کے ذریعہ قومی دولت بطور ہرجانہ دی جارہی ہے۔ انہوں نے ریپیڈ ٹرین کے منصوبے لاہور، پنڈی میں لگائے مگر انہوں نے کبھی دوسرے صوبوں کی طرف نظر نہیں کی۔ خیر خیبرپختونخواہ تو تھا ہی اس کی ”موت“ کا علاقہ مگر بلوچستان اور کراچی کے عوام کو انہوں نے کیا دیا؟ کراچی کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں اگر سندھی حکمرانوں نے محض لوٹ مار کا ذریعہ بنایا تو اسے انہی کے آدمیوں نے بھی ذاتی مفادات حاصل کرنے کی خاطر اسے اغیار کے ہاتھوں بیچ دیا۔ کراچی جو تین کروڑ سے زائد کا شہر ہے جو کہ یورپ کے متعدد ممالک سے زیادہ آبادی کا حامل ہے جو ملک کے لئے 70 فیصد ریونیو دیتا ہے اسے جواب میں محض اسے وعدوں پر ٹرخایا جارہا ہے۔ اس شہر کو جو کہ ہندوستان سے آنے والے مہذب، پڑھے لکھے ہنر مند اور اعلیٰ صلاحیتوں کی اکثریتی آبادی کا خطہ تھا ایسے منظم طریقے سے تباہ کیا گیا، اس کے اقتصادی اور تجارتی مرکز کو تخت و تاراج کردیا گیا۔ اسے حکمرانوں جن کا تعلق سندھ کی دیہی علاقوں سے رہا ہے اور ہے نے اسے مسائل کا گھر بنا دیا وہ اس شہر کو کبھی بھی ترقی ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے تھے بلکہ یہ ان کے لئے سونے کی کان تھا جسے انہوں انہوں نے بُری طرح سے لوٹا اور لوٹ رہے ہیں۔ کراچی میں دیہی سندھی حکمرانوں نے بھٹو دور سے جو ظلم و ستم کئے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ یہ شہر جو پاکستان میں تعلیمی لحاظ سے سب سے اوپر تھا یہ شہر جو صنعتی اور تجارتی لحاظ سے ایشیا کے اچھے شہروں میں آتا تھا یہ شہر جو ملک کی واحد بندرگاہ کے باعث اقتصادی ترقی کا شہ رگ تھا اس کے لئے اور اس کے عوام کے لئے کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا نہ یہاں ٹرانسپورٹ ہے، نہ بجلی اور نہ ہی پانی ہے۔ ٹرانسپورٹ پر پٹھانوں کی اجارہ داری ہے جو سندھی حکمرانوں کو رشوتیں دے کر وہ بسیں اور ویگنیں استعمال کررہے ہیں جو جانوروں کے لئے بھی استعمال نہیں کی جاتیں۔ اس شہر کو حکمرانوں نے مل کر ”کے الیکٹرک“ کے حوالے کردیا جس نے اس عظیم شہر کو بجلی کی فراہمی ایک عذاب بنا دی ہے اس میں وزیروں اور بڑی شخصیات کی اولادوں کو لاکھوں روپیہ کی تنخواہیں دے کر ان کے منہ بند کر دیئے گئے ہیں اور اس طرح شہری اور صنعتی علاقے لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کررہے ہیں۔ اس شہر کو فراہمی آب کے منصوبے “K-4” کو تعطل میں ڈال دیا گیا ہے اور شہریوں کے پانی کو ملک ریاض کے منصوبوں کے لئے مختص کرکے پانی کا قحط ڈال دیا جس سے با اثر افراد ٹینکرز کے ذریعہ پانی فروخت کرکے کروڑوں روپیہ ماہانہ کما رہے ہیں۔ اس شہر میں آبادی کے لئے قبرستان تک نہیں ہیں اور لوگوں کو ہزارہا روپیہ دے کر قربیں خریدنی پڑتی ہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ مردم شماری کے نام پر جو نا انصافی کی گئی ہے اس پر ساری سیاسی پارٹیوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ سندھی حکمران جان بوجھ کر اس سے چشم پوشی کررہے ہیں کیونکہ اس طرح کراچی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اضافی نشستیں مل جائیں گی۔ کراچی کی آبادی دیہی سندھی سے کہیں زیادہ ہے مگر اسمبلیوں میں اس کی نمائندگی دیہی سندھ کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ کراچی کے اطراف میں ”جعلی گوٹھ“ بنا کر وہاں اندرون سندھ سے لا کر لوگوں کو آباد کیا گیا ہے جب کہ سپرہائی وے نام نہاد سیلاب زدگان دس پندرہ سال سے جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں۔ کراچی کے شناختی کارڈ بنا کر دیئے گئے ہیں ان سب کا مقصد کراچی کی شہری آبادی کو کم دکھانا مقصود ہے۔ کراچی میں ماس ٹرانزٹ اور لیاری ایکسپریس وے جیسے منصوبے کی تکمیل کے لئے لوگوں نے دُہائیاں دی ہیں۔ کراچی کو میٹروپولیٹن شہر کی حیثیت حاصل ہونی چاہئی تھی یہاں میٹروپولیٹن پولیس اور نظام ہونا چاہئے تھا مگر سندھی حکمرانوں نے اسے یہ درجہ حاصل نہیں ہونے دیا۔ دنیا جہاں میں مقامی اداروں میں مقامی افراد کو ملازمتیں دی جاتی ہیں اور مقامی مسائل کو سمجھنے والے افسران تعینات کئے جاتے ہیں مگر یہاں بھی اندرون سندھ سے لوگوں کو جعلی ڈومیسائل بنوا کر عوام پر مسلط کردیا گیا ہے۔ جنہیں عوام سے ہمدردی ہے اور شہر کی ضرورتوں کا ادراک ہے، اس شہر کے پڑھے لکھے نوجوانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند ہیں۔ کوٹہ سسٹم جو دس سال کے لئے بھٹو نے مسلط کیا تھا آج نصف صدی کے بعد بھی جاری و ساری ہے اور ہر ملازمت پر سندھی دیہی کا ٹھپہ لگا ہوتا ہے۔ اس طرح تعلیمی اداروں میں کراچی کے طلباءکی جگہ اندرون سندھ کے افراد کو داخلے دیئے جاتے ہیں۔ کراچی سیکریٹریٹ میں آج اردو بولنے والے ملازم ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ روزانہ سینکڑوں بسیں اطراف کراچی اور گوٹھوں سے سندھی ملامین کو لے کر آتی ہیں جنہیں کروڑوں روپیہ ہر ماہ ادا کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس شہر پر اندرون سندھ کے سیاستدانوں، پولیس مسلط کردی گئی ہے جو اپنے ساتھ جرائم پیشہ افراد کو لے کر آتے ہیں جو کراچی میں جرائم کرتے ہیں اور انہیں پولیس کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ رینجرز جو کراچی میں کئی دہائیوں سے امن و امان قائم کرنے کے نام پر براجمان ہیں وہ بھی اُردو بولنے والوں کو اپنے نشاوں پر رکھتے ہیں یہ ایم کیو ایم کا نام لے کر کسی پر بھی اسلحہ کا الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ بھی اب پولیس کے نقش قدم پر چل کر کراچی کے دریا میں غوطے لگا رہے ہیں۔ اس شہر میں مختلف مافیائیں کام کررہی ہیں جس کی سرپرستی وہ اراکان اسمبلی اور سندھ کے بیوروکریٹ کررہے ہیں جس کا مقصد دولت کمانا ہے۔ اراکین اسمبلی جس میں اکثریت وڈیروں اور جرائم کی تاریخ رکھنے والے افراد کی ہے کسی طور بھی کراچی والوں کو اس کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ عیاش طبع لوگ اس شہر کے مزاج کو سمجھ ہی نہیں سکتے ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ جس قدر قدولت حاصل کرنی ہے کرلیں۔ اس وقت کوئی محکمہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں بغیر رشوت کے کوئی کام ہو سکے۔ سیاست دانوں اور نوکر شاہی کے گٹھ جوڑ نے کراچی کے امن و امان کو تہہ بالا کردیا ہے اور کراچی میں امن قائم کرنے والا کراچی آپریشن بھی اس گھناﺅنے گٹھ جوڑ کو ختم نہیں کرسکا ہے۔ کے ایم سی، کے ڈی اے، سندھ بورڈ آف ریونیو، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، سندھ بلڈنگ کنٹرول، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ٹرانسپورٹ، ہیلتھ اور ایجوکیشن کے محکموں میں کرپشن نیچے سے اوپر تک عروج پر ہے اور ان سب کا شکار کراچی کے باشندے ہیں۔ خصوصاً اُردو بولنے والا ان کے نزدیک محض ایک ایسا فرد ہے جسے جس قدر بھی تنگ کیا جا سکے کرو۔ کوئی کام بغیر پیسے کے ممکن نہیں ہے۔ موجودہ حکومت جو پیپلزپارتی کی ہے کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ”لوٹو، لوٹو اور لوٹو“ اس صورت حال میں اگر کراچی کو الگ صوبہ بنانے کا نعرہ لگتا ہے تو وہ فوراً سندھ دُشمنی کہلاتا ہے اور اسے سندھیوں کے خلاف قرار دیا جاتا ہے مگر اب وہ وقت دور نہیں ہے کہ کراچی اپنا حق لینے کے لئے آواز اُٹھائے۔ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو پھر مظلوم کو اپنا حق حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔(جاری)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں