ریاست جمہوریہ/عسکریہ پاکستان 134

آئین پاکستان

ایک قلیل آبادی کی ایک بستی ہو یا ایک لامحدود سرحدیں رکھنے والی آبادی اس کو ایک منظم ریاست کی شکل دینے کے لئے اصول و ضوابط درکار ہوتے ہیں اور پھر انہی اصولوں اور قواعد کا مجموعہ دراصل دستور یا آئین کہلاتا ہے۔ اس آئین یا دستور کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اسے ایسے اصولوں میں ڈھالا جائے کہ ریاست کے شہریوں کے مکمل حقوق کی حفاظت اس ریاست میں ہونے والی حکومت اور اس کے اداروں کے ذریعے انجام پا سکیں۔ پھر حکومت 3 ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ، یہ تینوں ادارے آئین میں وضع اصولوں پر کاربند ہونے کے پابند ہوتے ہیں۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے 9 سال بعد تک ملک بغیر کسی دستور کے چلایا گیا۔ 1956ءمیں پاکستان کا پہلا آئین وجود میں آیا مگر صرف دو سال کی قلیل مدت میں ہی 1958ءمیں ایوب خان کے دور حکومت میں بنایا گیا اور اسے بھی 1969ءمیں ختم کردیا گیا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور مںی تیسرا آئین 1973ءمیں مرتب کیا گیا جو موجودہ وقت تک نافذ العمل ہے۔
پاکستان کی سیاست میں آئین ابتداءہی سے کئی خلفشاریوں کے زیر اثر رہا۔ کئی ترامیمی مراحل سے گزرنا پڑا جو بیشتر سیاسی جماعتوں کے اپنے نقطہ نظر سے کی گئی جن میں نظریہ ضرورت کی اہمیت اجاگر رہی۔ اس طرح مقننہ اور عدلیہ کے مابین ایک مستقل مخاصمت کی صورت حال قائم رہی۔ عدلیہ پر ذمہ داری رہی کہ انصاف مہیا ہو، ہر صورت اور ہر معاملہ میں آئین کے مکمل اصول و ضوابط کے تحت کوئی ادارہ یا کوئی بھی سیاسی عہدیدار یا کوئی بھی قانونی حکم نامہ یا انتظامیہ کا کوئی بھی عمل ریاست کے آئین کے بر خلاف نہ ہو اور مقننہ اپنی قانون سازی کے کسی بھی پہلو سے آئین سے متصادم نہ ہو۔
”آئینی بحران“ ریاست جمہوریہ پاکستان کے لئے ایک عام اصطلاح میں ڈھل گیا ہے۔ موجودہ حالات اس کی ایک تازہ مثال ہیں۔ حکومتوں کا عدلیہ کے فیصلوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرنا یا ناپسندیدگی کی صورت میں تبصرے کرنا ایک وطیرہ عام برسوں رہا ہے۔ نچلی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک پر حملے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ حکومتیں بیشتر حالات میں عدالتوں سے نوازشی فیصلوں کی توقع رکھتی رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ اور اس کے ججوں پر شدید دباﺅ کی کیفیت ہے۔ موجودہ حکومت انتخابات کو التواءمیں ڈالنے کی جن کوششوں میں مصروف ہے اور جس جانفشانی سے چیف جسٹس اور دیگر معزز ججوں کے اختیارات سلب کرنے کی پارلیمانی کارروائیوں میں مصروف ہے، جس تندہی اور تیزی سے روزانہ کی بنیاد پر قانون سازی کی جارہی ہے وہ اس امر کا کھلا اشارہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی خصوصی طور پر موجودہ حکومت کو انتہائی خطرناک محسوس ہو رہی ہے۔ اسے بخوبی اندازہ ہے کہ عدلیہ آئین کی اہم شقوں کو نظر انداز نہیں کریے گی۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیتے ہوئے کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات سے متعلق تمام سہولتیں فراہم کی جائیں اور چونکہ خود الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے 30 اپریل کی تاریخ کو 8 اکتوبر 2023ءکی جو تاریخ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے تفویض کی ہے اس کے ذریعے چونکہ 10 یوم ضائع کردیئے گئے ہیں اس لئے اب یہ یقینی بنایا جائے کہ 12 مئی کو انتخابات کا عمل ہو جائے۔
حکومت اس فیصلے کے بعد ہیجانی کیفیت سے دوچار ہو کر اب آئین سے انحراف کے نئے راستے ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئی ہے۔ اتحادی حکومتوں کے مشیران، معاونین کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم اور وزراءکے ہمراہ ایک ایسے سابق وزیر اعظم جو عدالتوں سے مفرور کے زمرے میں آتے ہیں اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر دونوں ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ن لیگ 1977ءمیں پاکستان کی عدلیہ کے خلاف ایک گمبھیر سازش کی مرتکب ہو چکی ہے جس کی بدولت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اپنے عہدے سے فارغ ہونا پڑا تھا اور عدلیہ کے مابین ایک انتہائی درجے کی بداعتمادی کا کھیل کھیلا گیا تھا۔
فی الوقت بھی سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان اسی سازش کے ذریعے دراڑیں ڈالنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہ بھی انتہائی افسوسناک ہے کہ کچھ ایسی مثالیں بھی سامنے آتی رہی ہیں جو ان سازشوں کو تکمیل تک لے جانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ عدلیہ کے اندر کئی ایسے چہرے نظر آتے ہیں جن پر سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ شخصیات اس اعلیٰ درجے کے مقام پر متمکن ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
اصلاحات تو ہمیشہ ہونی چاہئیں اس وقت موجودہ حکومت نے عدلیہ کے اختیارات سے متعلق جو قانون پاس کروایا ہے وہ ایک احسن قدم ہے مگر یہ وقت غلط ہے اس احسن اقدام کو اپنی نظریہ ضرورت کے تحت لا کر اس کو متنازعہ بنا دیا ہے ورنہ یہ حقیقت ہے کہ آئین سے متعلق فیصلوں کو اگر فرد واحد کے بجائے ایک مختصر بنچ کے ذریعے حل کروایا جائے تو اس پر اعتماد کو فروغ حاصل ہوگا۔ آئین پاکستان کو ہر صورت میں محفوظ رکھنا ہو گا۔ ریاست کی اساس اس پر کھڑی ہے۔ اس وقت قانونی ماہرین اور عدلیہ سے منسلک افراد کے علاوہ عوام نے جس طرح آئینی بے ضابطگیوں پر ردعمل کا اظہار کیا ہے وہ خوش آئند ہے۔ اس سے یقینی طور پر یہ اشارہ ملتا ہے کہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام انصاف اور راست بازی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی امیدیں نظام عدل سے پیوستہ ہیں۔ اب شعور کو یقینی طور پر راستے مل چکے ہیں۔ پاکستانی قوم اب آسانی سے سازش کا شکار نہیں ہو پائے گی اور اس کا ادراک اب یقینی طور پر عالمی طور پر بھی ہو رہا ہے۔ پاکستان کو عوام کی مرضی سے چلنے دینا ہو گا۔ فیصلے عوام کے ہاتھوں میں ہوں گے۔ ان کے اختیار میں ہوں گے اپنے معاملات سے متعلق۔ وقت آگیا ہے کہ جمہوریت کو اس کی صحیح شکل میں اختیار کیا جائے جس میں عوام ہی سرچشمہ ہوتے ہیں اپنی تقدیر اور اپےنے فیصلوں کے لئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں