نیاگرافال سے بھی گہرے اور CN ٹاور سے بلند جذبات اور خواہشات کے احساس کو سینوں میں دبا کر ہر شخص وقت کی سیڑھی پر قدم رکھے جلد از جلد منزل تک پہنچنے کی جستجو میں آسمان کی بلندیوں کو چھو جانے کے لئے بے تاب ہوتا ہے۔ پردیس کی سختیوں کو برداشت کرنے کے لئے چٹان کی طرح مضبوط اور لوہے کی طرح سخت جاں ہو کر دن رات معاش کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے۔ اسی دن رات کی دوڑ میں کئی رشتوں کو پیچھے چھوڑ آتا ہے۔
کتنی یادوں کے چراغ ہمیشہ جلنے کے لئے ماضی کو دھکا دے کر آگے کی دوڑ میں نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ جنم بھومی کو فراموش نہیں کرتا، رشتوں کی ڈور کو کمزور نہیں ہونے دیتا، ہر لمحہ آنسوﺅں کی نمی سے یادوں کا استقبال کرتا ہے۔ اپنے پیاروں سے ہاتھ چھڑا کے دور پردیس کی فضاﺅں میں گم ہو جاتا ہے۔ لیکن اپنے دیس کی مٹی میں نقش پا چھوڑ آتا ہے۔ خود بھی آنسوﺅں کی گیراج سیل لگا لیتا ہے اور اپنی جڑوں کی مضبوطی کو اور طاقت بخش دیتا ہے۔ تمام عمر دیار غیر میں گزارنے کے بعد بھی خواہشات کی شمع بجھنے نہیں پاتی۔
یہ خواہشات یہ آرزوئیں غیر ممالک کی دولت میں کھو کر بھی اپنے وجود کی نفی نہیں ہونے دیتیں۔ تمام عمر گزارنے کے بعد بھی اپنے وطن کی مٹی میں بسی خوشبو پھر سے بچپن، جوانی، ماں باپ، بہن، بھائیوں، دوستوں کی یاد دلاتی رہتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اجنبیت کی دیوار ہمیشہ درمیاں میں حائل ہو کر جذبوں اور خواہشوﺅں کو گلا گھونٹ کے مار دیتی ہے۔ ہاتھوں میں بیساکھیاں تھما دیتے ہیں۔ یہ اجنبی قوم کے لوگ نجانے کون سی کشش ہے، کون سی مقناطیسیت ہے جو اپنی طرف کھینج لیتی ہے اور لوگوں کو تمام جمع پونجی خرچ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ جمع پونجی صرف روپے پیسے کی شکل میں نہیں بلکہ اپنے پیاروں سے دوری اور فاصلے کی بھی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ نہ ادھر کے رتہے ہیں نہ ادھر کے۔ ہمیں اپنی شناخت کو منوانے کے لئے دن رات محنت کے گھوڑے سرپٹ دوڑانے پڑتے ہیں۔ فکر، تلاش و شناخت کا تو پتہ نہیں صرف فکر معاش ہر جگہ بادلوں کی طرح اڑتی دکھائی دیتی ہے۔ انجینئر، پروفیسر، ڈاکٹر، سائنسدان، طالبعلم سب اپنی قابلیت، ہنر، ڈگریوں کو بالائے طاق رکھ کر ملازمت پیشہ افراد کے اس قبیلے میں جا پہنچتے ہیں جہاں صرف ڈالر، پاﺅنڈ کی جنگ جیتنا مقصد ہے۔ انسانی فلاح، خدمت سب جذبے اندھیروں میں کھو جاتے ہیں۔
ہماری نئی نسل گرین کارڈ اور غیر ملکی پاسپورٹ کو نجانے کیوں اہمیت دیتی ہے۔ حالانکہ یہ کاغذ کے بے جان ٹکڑے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتے ہیں کیونکہ دن رات مشقت اور سوشل لائف سے دوری ہڈیوں کو تھکا دیتی ہے۔ گھر کا ہر فرد روٹی کے لئے کوشاں ہے حالانکہ دیکھا جائے تو روٹی کا حصول پہلے بھی ممکن تھا، یہاں ان ملکوں میں روٹی کوئی خاص شکل کی ہے، یہ سمجھ میں نہیں آئی بات۔
کاش اپنا سب کچھ بیچ کر غیروں کے آگے اپنے احساسات کو قربان کرنے والوں کو یہ کوئی بتا سکے کہ یہاں کی مٹی بے وفا ہے۔ ہم سے ہماری شناخت چھین کر مایوسی کا کشکول ہمارے دامن میں تھما دیتی ہے۔ ویلفیئر کی شوگر کوٹڈ دوائی ہمارے مسائل میں اکسیر بنا کر پیش کرتی ہے۔ محنت کی برکت کا تصور چھین لیتی ہے۔ کتنا مہنگا سودا ہم کرتے ہیں اپنے ملک میں محنت کرنے کے بجائے دوسروں کی سرزمین پر شدید سردی، بارش، برفانی موسموں کا مقابلہ کرنے کے بعد بھی دلوں میں اداسی، جدائی، تنہائی کی آندھی کو روک نہیں سکتے۔
دراصل یہ فیصلے ہمارے اپنے ہیں ہم ہمیشہ تقدیر کو مورد الزام نجانے کیوں ٹھہراتے ہیں۔ دریا میں بہتے تنکے کی طرح عمر کا ایک قیمتی حقہ پانی کے بہاﺅ کی طرح ادھر ادھر لڑھکتے گزار دیتے ہیں۔ صرف ایک مقصد لے کر آتے ہیں، دولت کمانا۔ بچوں کو تعلیم دلوانا، اپنے پیچھے رہ جانے والوں کی ضروریات کا خیال کرنا۔ اس تمام چکر میں یہ بھول جاتے ہیں کہ خدا نے انسان کو مقصد پورا کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کا مقصد اپنی عاقبت سنوارنے کا مقصد، خدا کے حضور پرسکون ہو کر حاضر ہونے کا مقصد، سب وقت کی دھول اپنے ساتھ اڑآ لے جاتی ہے۔ پھر آخیر عمر کا ایک دور واپس پلٹنے کو ہر پل بے چین رکھتا ہے لیکن حالات مجبوریاں خدشات سب کچھ نہ آگے جانا دیتا ہے، نہ پیچھے رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی کشمکش میں وقت کچھ اور آگے کی طرف سرک جاتا ہے اور ہم سب یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ کچھ سال بعد یقیناً اپنے ملک اپنے پیارے ملک واپس سدھار جائیں گے لیکن ہمارے جسم تابوت میں بند ہو کر بے جان خواہشات کو ساتھ لئے واپس جاتے ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے جس مٹی کو چھوڑتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ اس میں ہماری جڑیں دبی ہیں یہاں اردگرد محبتوں کی گیراج سیل ہے۔ دکھ درد میں تکلیف بیماری خوشی غمی میں اپنوں کا ساتھ ہے۔ محبت فضا میں رچی بسی ہے۔ ہر پھول میں خوشبو ہے۔ ہر رنگ پکا ہے، ہر جذبہ سچا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہمارا بچپن جہان دفن ہے اس کو چھوڑ کر آتے ہیں پھر بڑھاپا ساتھ لئے اسی مٹی میں دفن ہونے کی خواہش کرتے ہیں۔ دیار غیر کی خواہش کے لئے سب کچھ داﺅ پر لگانے والوں کو احساس نہیں یہاں دن کی روشنی میں بھی اکیلاپن ہے اور رات کی خاموشی میں جان لیوا سناٹا۔ ڈالروں کی شکل میں ”لائف سپورٹ“ مہیا کردیا جاتا ہے جو نہ مرنے دیتا ہے اور نہ جینے دیتا ہے۔ ہم انسان بھی عجیب مخلوق خدا ہیں۔ دولت نہ ہو تو اس کا رونا روتے ہیں۔ مل جائے تو کچھ اور چاہنے لگتے ہیں۔ پردیس میں رہنا بھی چاہتے ہیں اور یہاں سے چھوڑ کر واپس بھی جانے کو دل کرتا ہے اور پھر وہی شعر یاد آتا ہے۔
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
برانڈڈ چیزوں کے اشتیاق میں اپنے ملک کی مٹی کی خوشبو کو سانوں میں محسوس کرتے ہیں لیکن اس مٹی کو پسند نہیں کرتے۔ محبت کو تلاش کرتے پھرتے ہیں لیکن سچی محبت کو پھر سے جا کر اپنانے کی جدوجہد نہیں کرتے۔ ہمیشہ یہ کہتے سنتے ہیں، حالات اجازت نہیں دیتے، جب ”حال“ ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے تو پھر کیسے ارادے؟ کیسی سوچ؟
بعض اوقات لوگوں کی آراءارادوں جذبوں کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ خصوصاً جب کوئی یہ کہے۔ واپس آکر کیا کرو گے، یہاں کیا رکھا ہے سوائے غربت اور مایوسی کے، اچھے ملک میں اچھی طرح رہائش زندگی کے لطف کیوں نہیں اٹھاتے۔ واپسی کا نہ سوچا کرو۔ یہ تمام باتیں ہر شخص ہر روز سنتا، سمجھتا اور محسوس کرتا ہے۔ اسی لئے فیصلہ کرنے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ پائے استقامت میں لغزش، ارادوں کو کچی دیوار کی مانند خطرے کا الارم سناتی رہتی ہے۔ خدا کی ذات پر بھروسہ اور توکل ہی ان ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے۔ اگر قدرت نے رزق دینا ہے تو کہیں بھی پہنچ جائے گا۔ محنت و مشقت کا لباس زیب تن کیا ہو تو حالات اور برے وقت کی آندھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اگر یہاں رہنا ہے تو محنت کرکے اپنے آپ کو منوانا ہے۔ اگر واپس جانا ہے تو پھر بھی تکلیف اور محنت کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ارادوں کی ڈور کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھنا اور محنت، کام، جدوجہد کے سمندر میں تیراک بن کے لہروں کا مقابلہ کرنا ہی اصل میں مقصد حیات ہے۔ کیونکہ بقول علامہ اقبال کے۔
ہر ملک ملک ماست
424