۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 346

اقبال لطیف کا تجزیہ


اقبال لطیف لندن میں مقیم ہیں ان کی تحاریر اور ان کے عالمی سیاست اور اقتصادیات پر تبصرے بے لاگ، غیر جانبدار اور انتہائی دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں ان کی یہ تحریر جو افغانستان اور طالبان کے بارے میں ہے پیش کی جارہی ہے تاکہ موجودہ انتہائی پیچیدہ صورت حال واضح ہو سکے۔ یہ تحریر انگریزی میں ہے جسے شہزاد ناصر صاحب نے اُردو کا جامعہ پہنچایا ہے:۔

”تاریخ کا تعصب سے بالاتر ہو کر مطالعہ کریں“

# افغانستان # پاکستان

آج میری ملاقات بادشاہ ظاہر شاہ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے بہت ہی معقول تعلیم یافتہ افغانوں سے ہوئی، وہ ڈیونڈر لائن کو قبول نہیں کرتے اور نہ ہی پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں، مطلب موجودہ جغرافیائی سرحدات کے تسلیم کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کو 1880ءکی سرحدی پوزیشن میں دوبارہ بحال کیا جائے۔ افغانوں کے اس مطالبہ میں ہمارے مشرقی ہمسایہ ہندوستان کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ کوئی بھی افغان لیڈر بشمول کرزئی، غنی اور یہاں تک طالبان بھی ڈیونڈر لائن کو تسلیم نہیں کرتے۔ اگر کوئی میکمومن لائن (ہندوستان۔چین سرحد) یا ریڈ کلف لائن (ہندو پاکستان سرحد) کو چھیڑنے کی بات کرے تو ہندوستان اس کے دفاع کے لئے ایٹمی جنگ تک لڑنے کو تیار ہو جاتا ہے لیکن متنازعہ ڈیونڈر لائن کے معاملے پر وہ 1947ءکے بعد سے افغانستان کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور شخص ہندوستان کی اس دوغلی پالیسی پر سوال اٹھا سکتا ہے۔ یہ تینوں سرحدیں برصغیر سے رخصت ہونے والے انگریزوں نے جانشین ممالک کو ورثے میں چھوڑی ہیں۔
ان سرحدوں کی لکیروں کے تنازعات معمولی نوعیت کے ہیں سوائے ڈیونڈر لائن کے جو کراچی سے لے کر اٹک سے آگے تک سرحدات کو یکسر بدل کر رکھ دے گی۔ یہ تمام سرحدی لکیریں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہیں لیکن ڈیونڈر لائن کے معاملہ پر ہندوستان اور افغانستان ایک ہی صفحہ پر ہیں کہ پاکستان کو کاٹ کر دبانے کا یہ بہترین موقعہ ہے۔ خودغرض سیاست کو اس سے بہتر مثال سے سمجھا جانا ممکن نہیں ہے۔ میکموہن اور ریڈ کلف لائنوں کی طرح ڈیونڈر لائن بھی برطانوی راج کی جانب سے جانشین ریاست کو ورثے میں دی گئی لیکن افغانستان اس کی قانونی حیثیت تسلیم کرنے سے یکسر منکر ہے۔ ہندوستان کی بہ نست پاکستان ایک نئی قائم ہونے والی ریاست تھی لہذا اسے اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت کے لئے درخواست دینی پڑی جس کی افغانستان نے بڑی شدومد سے مخالفت کی۔ ذرا بھارت کو ودیعت کردہ کسی بھی سرحد کی خلاف ورزی کی بات کرنے کی کوشش تو کرکے دیکھیں، آپ کو ہندوستان کے ردعمل سے اس کی دوغلی پالیسی کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ آپ اس خودغرض دوغلے پن کا اندازہ کریں کہ جو چیز ہندوستان کے لئے اچھی ہے وہ پاکستان۔ افغانستان کے لئے اچھی کیوں نہیںہے؟ افغانستان کے ساتھ ہمارے خراب تعلقات کی جڑ ڈیونڈر لائن کہلانے والی یہی سرحدی لکیر ہے۔ برطانوی راج اور روس کے مابین جاری گریٹ گیم میں ان کلیدی ذروں کے دوسری طرف کا خطہ ہزاروں سال سے زبردست سازشی چالوں، جنگی کارروائیوں کا مرکز رہا ہے۔ اختلاف کے بیج پہلے دن ہی بو دیئے گئے تھے۔ جب ہندوستان نے تسلیم شدہ تقسیمی فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے افغانی در اندازوں کے موقف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ پٹھان جذبہ خیرسگالی کہاں گیا؟ جب کہ ہندوستان کی صورت اسی ڈیونڈر لائن کی خلاف ورزی ہندوستان۔ افغانستان کے درمیان جنگ کی مستقل وجہ ہوتی لہذا بچگانہ باتیں کرنا چھوڑیں یہی وجہ ہے کہ ظاہر شاہ کے مطالبات کی مستقل دردسری کم کرنے کے لئے پاکستان نے 1967ءمیں حکمت یار گروپ کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ چالیس لاکھ افغانی مہاجرین کی خندہ پیشانی کے ساتھ میزبانی کرنے کے بعد براہ کرم اب یہ بات کرنا بند کردیں کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ دوستانہ مراسم کیوں استوار نہیں کرتا۔ ہمارے یہاں فروغ پانے والی طالبانائزیشن افغانستان میں 1973 میں ہونے والی جنگ کا نتیجہ ہے۔ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد پاکستان کا پورا چہرہ ہی بدل گیا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے ہمراہ قرون و فسطائی ذہنیت، کلاشنکوف اور اقتصادی انتہا پسندی کا کلچر لے کر آئے ہیں، روسی حملے کے خلاف مزاحمت نے سبز اور کالی پگڑیوں کو جنم دیا جو امریکی سرمائے سے قائم ہونے والے مدرسوں کے جال کی مدد سے افغانستان اور پاکستان کے کونے کونے میں پھیلا دی گئی۔ اس مہلک بیماری کو ان سب نے مل کر پھیلایا ہے لیکن اب ہر کوئی اس کی ذمہ داری لینے سے انکاری ہے۔

اسامہ بن لادن، القاعدہ اور سیاہ جھنڈے امریکی سی آئی اے کے پیسوں سے شروع کئے گئے جہاد کی ضمنی پیداوار ہیں وہ روس کو تو توڑنے میں کامیاب ہو گئے لیکن ان کریہہ جہادی نشانات کو یہیں چھوڑ گئے۔ آج کا دہشت گرد حقانی گروپ گزرے کل بھی ریگن کے نزدیک حریت پسند تھا۔ غنی اور کرزئی جن کے ابدالی جیسے اباﺅ اجداد مسلسل برصغیر میں لوٹ مار کرتے رہے لیکن آج وہ ہندوستان کے سب سے عزیز دوست ہیں یہی سیاسی زمینی حقائق ہیں اور ان کا دوستی دشمنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ”ہم (ہندوستان) انہیں (افغانستان) اس لئے پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ پاکستان کو کاٹ کر تباہ کرنے کے لئے تیار ہیں“۔ مت بھولئے کہ سومنات کو تاراج کرنے والا غزنوی اور ابدالی پاکستانی نہیں تھے۔ یہ انہی کے اباﺅ اجداد تھے جو آج آپ کے سب سے عزیز اور گہرے دوست ہیں لیکن کسی خوش فہمی میں مت رہیے جس طرح انہوں نے ہماری پشت میں چھرا گھونپ کر ہمیں دارالحرب قرار دے دیا، دروں کو نبٹانے کے بعد وہ آپ کے ساتھ بھی یہی کریں گے۔ طالبان اور حقانیوں کا اپنے عقائد و مقاصد پر مبنی ایجنڈا ہے وہ کسی کے دوست نہیں ہیں، اگر وہ پاکستان کو زیر کر لیتے ہیں تو لاقاونیت کی افراط ان کی دلی خواہش ہے جب غنی اور کرزئی پاکستان کو جغرافیائی طور پر تباہ کرنے کی بات کرتے ہیں تو ہندوستان ان کو اپنا عزیز دوست کیوں نہ سمجھیں لیکن اگر آپ لائن آف کنٹرول کو اپنی جگہ سے ایک انچ ہلانے کی کوشش کریں تو آپ دیکھیں گے کہ جہنم کے تمام دروازے آپ پر کھول دیئے جائیں گے کہ ”ڈیونڈر لائن کو تو افغانیوں کی خواہشات کے مطابق مستقل کردینا چاہئے لیکن ہماری سرحدات پربات کرنا شجر ممنوعہ ہے“۔
میں یہاں اس حقیقت کو اجاگر کر رہا ہوں کہ موجودہ سرحدوں کو وہ نہیں مانتے لہذا مذاکرات کرنا بے سود ہیں کیونکہ وہ ہمیں دوست نہیں مانتے وہ پاکستان کو جغرافیائی طور پر کاٹنے کے درپے ہیں اور سمجھتے ہیں اس سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں