پاکستان کی سیاست میں اداروں کی مدد ہمیشہ کسی ن کسی طور شامل رہی۔ حکومتیں بنتی رہیں اور معزول ہوتی رہیں۔ پر ہٹائی جانے والی حکومت اس عزم کا اعلان کرتی رہی کہ وہ دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد اداروں کو اپنی حدود میں رہنے پر قانونی اور آئینی طور پر پابند کرے گی۔ چاہے وہ فوج ہو یا عدلیہ یا دیگر ادارے مگر درپردہ تمام جماعتیں ان اداروں کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنے کے جرم میں شریک رہیں۔ الیکشن کمیشن کا عمران خان اور تحریک انصاف سے متعلق ممنوعہ اور فارن فنڈنگ کا فیصلہ ظاہر یہ ہی کررہا ہے۔ سپریم کورٹ کی اس ہدایت کے باوجود کہ تمام سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کا تفیصلی جائزہ لے کر ان کے بارے میں فیصلے کئے جائیں کہ برعکس اس وقت الیکشن کمیشن نے صرف تحریک انصاف کے گوشواریوں سے متعلق فیصلہ صادر کیا ہے اور اسے ممنوعہ فنڈنگ کے دائرے میں لاکھڑا کیا ہے جس میں عمران خان اور تحریک انصاف پر غیر ملکی کمپنیوں اور افراد سے چندہ لینے کے الزامات ہیں۔ جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں ان کے مطابق کئی پاکستانی افراد اور کمپنیوں کو غیر ملکی قرار دے دیا گیا ہے۔ جس کی تردیدیں میڈیا کے ذریعے آنی شروع ہو گئی ہیں اور بعض کی جانب سے پاکستان میں عدالتوں سے رجوع کرنے کے ارادے بھی ظاہر کئے گئے ہیں۔
حکومت پاکستان بیرون ملک رہنے والوں اور وہاں کی شہریت اختیار کرنے کے باوجود اپنے لوگوں کو Disown نہیں کرتی۔ ریاست پاکستان یا حکومت پاکستان کی طرف سے ایسے لوگوں کو پاکستان اوریجن کارڈ مہیا کیا جاتا ہے اس کارڈ کی بنیاد پر حامل ہذا پاکستان میں یہ نہ صرف جائیداد رکھ سکتا ہے بلکہ اس کی خرید و فروخت بھی کرسکتا ہے۔ کسی بھی قسم کا کاروبار کرسکتا ہے۔ ایسے افراد کے لئے حکومت پاکستان خاص طور پر ہاﺅسنگ سوسائیٹیز کا اجراءکرتی ہے۔ مزید آسانیاں فراہم کرتی ہے۔ ایسے افراد پاکستان میں داخَ ہونے کے لئے ویزوں کے عمل سے نہیں گزرتے بلکہ جتنا عرصہ چاہیں قیام کرسکتے ہیں۔ یہ وہ ساری سہولتیں ہیں جو حکومت پاکستان بیرون ملک رہنے کے ساتھ دہری شہریت رکھنے والوں کو فراہم کرتی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب حکومت پاکستان آئینی طور پر ان اوریجنل پاکستانیوں کو غیر ملکی نہیں مانتی تو الیکشن کمیشن نے کس طور پر ان تمام کو اس درجہ سے خارج کیا۔ جب آئین پاکستان ایسے افراد سے لاتعلقی اختیار نہیں کرتا جب تک وہ بیرون ملک پاکستان کے خلاف کسی سرگرمیوں میں شامل نہ ہو تو الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر ان کے کسی بھی سیاسی جماعت کو امداد دینے پر اعتراض کر سکتا ہے۔ اس کی وضاحت الیکشن کمیشن سے طلب کرنا ہر پاکستانی جو دوہری شہریت کا حامل، حق بنتا ہے۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد سے اتحادی حکومت کی لاتعداد پریس کانفرنس نے ایک دفعہ پھر اسے اسی مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں وہ خود اس معاملے پر تذبذب کا شکار نظر آتی ہے کہ اس فیصلے کے تمام مندرجات درست ہیں بھی یا نہیں۔ کیا اس تمام کے بل بوتے پر وہ ایک ایسی جماعت جو کئی صوبوں میں حکومت کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں مقبول ہے کو تحلیل کروانے میں کامیاب ہو سکے گی۔
قانونی مبصرین کے مطابق حکومت کا عمران خان کی نا اہلی کا ریفرنس بہت مضبوط بنیادوں پر نہیں کھڑا ہو سکے گا۔ تحریک انصاف نے بھی اس فیصلے کے خلاف عدالت میں جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وہ الیکشن کمیشن جو ایک ایسے فرد جس پر اربوں کی منی لانڈرنگ کا الزام ہو اور وہ وزیر اعظم کی عہدے پر فائز کیا جائے اور ایک ایسی کابینہ جس کے بیشتر وزراءضمانتوں پر ہوں، پر کوئی اعتراض اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا تو ایسے ادارے اور اس کی صلاحیتوں اور کارکردگی پر تحفظات تو اٹھ سکتے ہیں اور تحفظات تو اس وقت موجودہ حکومت کی ناکام پالیسیوں پر اٹھ رہے ہیں۔ معاشی بدحالی کا شکار عام انسان میڈیا پر اشک بار نظر آتا ہے۔ معیشت اور سیاست میں ہمیشہ ہم آہنگی رہی ہے، کوئی بھی حکومت متزلزل معاشی بنیادوں پر قائم نہیں رہ سکتی۔ موجودہ حکومت معاشی مسائل کے اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ حکومت پاکستان کی افواج کا سپہ سالار دستک دے رہا ہے بیرونی مالیاتی اداروں پر اور دوست ممالک کے دروازوں پر، یہ نہ صرف حکومت کی ناکامی، نا اہلی، کمزوری بلکہ سفارتی ناکامی کی بھی دلیل ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ پاکستانی قوم کی عزت و غیرت پر ایک تازیانہ ہے۔ قیاس یہ ہی ہے کہ ڈالر کی اڑان میں کمی آئی ایم ایف کی رضا مندی کے بعد آئی ہے جو آرمی چیف کی گزارش کی بدولت عمل میں آئی مگر سوال یہ ہے کہ وزارت خانہ کی تمام بے معنی وضاحتوں سے قطع نظر مالیاتی معاملات سے منسلک تمام گروہوں کے علم میں ہوتا ہے کہ ذخیرہ اندوزی کہاں ہو رہی ہے اور کون سے اسباب ملکی کرنسی کو ڈوبانے میں شامل ہیں اور یہ لائحہ عمل کن حلقوں کی ایما پر اختیار کیا جارہا ہے اور فی الوقت جب روپے کی قدر میں کچھ بہتری آتی دکھائی دے رہی ہے تو کیا یہ کسی سخت اقدام کا ردعمل ہے تو پھر مسئلہ یہ ہی آن پڑتا ہے کہ قدم کو اٹھانے میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی۔ کیا وجوہات رہیں۔ کیا بالا بالا ہی ہاتھ کی صفائی دکھائی دی گئی۔ کیا ایک دفعہ پھر پاکستانی خزانہ بیرون ملک منتقل ہوگیا، کچھ خبروں کے مطابق حکومتی حلقے اس بات سے آگاہ رہے ہیں کہ اس وقت معیشت کو دگرگوں حالات تک لے جانے میں یہ کارروائیاں کی گئی ہیں مگر چشم پوشی سے کام لیا گیا۔ یہ بھی معلوم کرنے میں پاکستانی قوم حق بجانب ہے کہ اگر آرمی چیف کی ایما پر بیرونی مالیاتی اداروں نے پاکستان کی مدد کی حامی بھری تو اس کے عوض پاکستان نے ان کی کن شرائط پر آمادگی ظاہر کی۔ اس وقت افغان لیڈر ملا الظواہری کی امریکی حملے کے باعث ہلاکت پاکستان کی طرف مبہم اشارے کررہی ہے اگر ایسا ہوا ہے تو یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر رقم کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کے بیانیہ کو اور تقویت ملے گی۔ عمران خان بارہا اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ امریکہ سے دوستی چاہتے ہیں مگر برابری کی بنیاد پر۔ آزاد خارجہ پالیسی کے ساتھ دنیا کے تمام ممالک سے تعلقات استوار رکھنا چاہتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کی موجودہ حکومت اپنے تمام مسائل پس پشت ڈال کر صرف اور صرف عمران خان کو سیاست سے علیحدہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جمہوریت کا نعرہ لگانے والی حکومت کو چاہئے تھا کہ اس وقت تحریک انصاف سے مخاصمت کے برعکس ایسا ماحول بناتی کہ ایک ورکنگ ماحول ترتیب دیا جاتا۔ اقتدار سیاست کا وقتی جز ہے۔ کبھی ایک اور کبھی دوسری جماعت برسر اقتدار آتی ہے۔ نا اہل ہونے سے یا کروانے سے سیاست ختم نہیں ہوتی۔ ماضی میں پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایسا ہوا ہے مگر جماعت زندہ رہی۔ جماعتوں کو قائم و دائم رہنے کے لئے موروثیت کی ضرورت نہیں ہوتی، ایک سچے اور مخلص لیڈر کے وارث عوام اور اس کی جماعتی کارکن ہوتے جو نظریاتی طور پر اپنے لیڈر کے ہم قدم ہوتے اور اس کے بعد اس کے مشن اور نظریہ کو لے کر آگے بڑھتے ہیں۔
224