پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 223

امریکہ اور جنگ

امریکہ اس وقت اپنی تاریخ کی عظیم ترین مایوسیت سے گزر رہا ہے۔ پچھلے 20 سال تک اپنے لوگوں کو یہ یقین دلانے کے بعد کہ وہ افغانستان میں ایک فاتح کی حیثیت سے موجود ہے، اچانک امریکی حکومتی حلقوں کی جانب سے امریکی عوام کو یہ اطلاع دینا کہ تقریباً ڈھائی ہزار فوجی گنوا کر اور تقریباً 3 ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد اس جنگ کے نتائج امریکہ کے حق میں نہیں آئے ایک انتہائی مشکل صورت حال ہے۔ امریکی قوم اور میڈیا اس پر اپنے بھرپور ردعمل کا اظہار کررہی ہے۔ ابلاغ عامہ میں ایک طوفان کا عالم ہے، جس میں امریکہ کی حالیہ شکست سے لے کر ماضی کے تمام واقعات کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
تاریخ لکھنے والوں کے مطابق امریکہ اپنی آزادی کے 239 سالوں میں سے 222 سال دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ جنگوں میں مصروف رہا یعنی War History کے اوراق کے حساب سے امریکہ اپنی آزادی کے صرف 17 سال امن کی حالت میں رہا۔ Kally & Laycoks نشاندہی کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ 193 ممالک میں سے 84 ملک اب تک امریکی جنگوں کی زد میں آچکے ہیں۔ 1950ءمیں کوریا پر حملے کے بعد سے 2020ءمیں ایران پر بمباری کرنے کے درمیان ایک لمبی فہرست ہے جہاں امریکہ نے اپنے کو سپرپاور ثابت کرنے کے دعوے کئے اور کئی جگہوں پر پسپائی سے دوچار ہوا۔ عراق اور شام اس کی تازہ مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کو شامل کرتے ہوئے کئی جنگیں ایسی ہیں جنہیں Oil War کا نام دیا گیا، کچھ ایسی بھی جنگیں رہیں جن میں امریکہ براہ راست ملوث نہیں ہوا۔ افغانستان میں روس کے حملہ کے بعد امریکہ نے اس وقت کے مجاہدین کی مختلف راستوں سے بھرپور امداد کی اور انہیں جنگی ہتھیاروں کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ امریکہ نے افغانستان سے براہ راست جنگ 2001ءمیں شروع کی جس کا آغاز نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد القاعدہ اور طالبان کو ختم کرنے کے لئے کیا گیا۔ افغانستان میں امریکہ نے اپنے لائحہ عمل کے مطابق حکومت قائم ہونے میں مدد کی۔ روس کے انخلاءکے عبد نجیب اللہ نے حکومت سنبھالی مگر امریکی تسلط کے بعد حامد کرزئی کو حکومت سنبھالنے کا موقع دیا گیا اور اسی طرح ان کے بعد امریکہ کی ایماءپر اشرف غنی کو حکومت کا سربراہ ہونے کا موقع ملا۔ 2 دہائیوں تک افغان حکومتوں کو سہارا دینے کے باوجود امریکہ افغانستان میں انی رٹ قائم کرنے میں ناکام رہا اور پے در پے شکستوں کے بعد آخرکار اگست 2021ءمیں انخلاءپر مجبور ہوا۔
افغانستان کی جنگ امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ ثابت ہوئی۔ اس جنگ میں امریکہ نے ہر پہلو سے بے طرح نقصان اٹھایا اور انتہائی ہزیمت سے دوچار ہوا۔ اس سے قبل ویت نام کی جنگ امریکہ کے لئے ایک سیاہ باب شمار کی جاتی تھی مگر افغانستان میں جنگ شروع ہونے سے لے کر فوجیوں کے انخلاءتک اسے ایک انتہائی غیر معمولی صورت حال سے دوچار ہونا پڑا۔ امریکی حکومت کے علاوہ امریکہ کے فوجی اور سلامتی ادارے بھی اس وقت اس تمام قضیے کو انتہائی تذبذب کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے بیانات میں جہاں اپنی فوجوں کے لئے ستائش ہیں، وہیں وہ انتظامیہ سے متعلق الجھن ظاہر کرتے نظر آرہے ہیں۔
صدر جوبائیڈن کی اس تقریر نے جو انہوں نے امریکی عوام کو یہ یقین دلانے کی کہ امریکہ اپنے تمام اہداف مکمل کرنے میں کامیاب رہا ہے پر لاتعداد سوالات اٹھائے جارہے ہیں نہ صرف امریکہ کے اندر بلکہ بیرون ملک اتحادیوں کی جانب سے بھی۔ بائیڈن ایڈمنسٹریشن کے اس دعوے کے باوجود کہ 15 اگست کو طالبان کے قبضہ کے بعد امریکیوں اور ان کے حواریوں کا انخلاءبہترین طریقے سے ہوا، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، ہوم لینڈ سیکیورٹی اور صحت اور انسانی سروسز کے بیانات کچھ اور ہی منظر پیش کررہے ہیں۔ بیرون ملک عارضی کیمپوں سے آنے والی خبروں کے مطابق وہاں حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ ہزاروں کے پاس یہ بھی معلوم نہیں کہ امریکہ میں داخلے کے لئے صحیح دستاویزات ہیں یا نہیں۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ ایک کثیر تعداد ہے جن کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزہ دینے کی کارروائی کی جائے گی جس کی معیاد دو سال کے لگ بھگ ہو گی۔ ذرائع کی خبریں ہیں کہ حکومت اس سلسلے میں کانگریس سے درخواست کرنے کی تجویز پر غور کررہی ہے کہ ان کو اسی طرح قانونی حیثیت دیدی جائے جیسے 1960ءمیں کیوبا سے آئے ہوئے لوگوں کو دی گئی یا ویت نام سے امریکہ پہنچنے والوں کو 1975ءمیں۔
یوروپ اس وقت پناہ گزینوں کے مسئلے پر فکرمند ہے، شام کی حالیہ جنگ کے بعد وہ اس صورتحال سے دوچار ہو چکا ہے، مغربی میڈیا میں چھپنے والے مضامین اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ یورپ اب امریکہ کی لڑائیاں لڑنے سے گریز کی کیفیت سے گزرنے کے مراحل میں ہے۔ یوروپی ممالک اب یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ امریکہ کی لڑائیاں لڑتے لڑتے تھک چکے ہیں اور آئندہ وہ کسی بھی ایسی لڑائی میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
صدر جوبائیڈن نے اپنی تقریر میں اپنے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اس اندیشہ کا بھی اظہار کیا کہ اس جنگ کو یہاں اختتام پذیر ہونا ہی چاہئے تھا اس لئے کہ ابھی کئی نئے محاذ کھلنے کے درپے ہیں۔ جوبائیڈن نے خاص طور پر چین، ایران اور روس کا تذکرہ کیا۔ چین اس وقت افغانستان میں ایک مضبوط اتحادی کے طور پر سامنے آرہا ہے وہ اس وقت اس پورے خطہ میں بھاری سرمایہ کاری کر چکا ہے، افغانستان میں معدنی ذخائر وافر طور پر موجود ہیں، چین اس پر کام کرکے عالمی تجارتی منڈیوں میں نمایاں حیثیت بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ون بیلٹ روڈ منصوبہ میں کامیاب کے لئے بھی اسے افغانستان کی ضرورت ہے۔ افغانستان نے سی پیک کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ طالبان نمائندے ذبیح اللہ مجاہد نے یہ کہا ہے کہ چین کی موجودگی ان کے لئے ام ہے، طالبان کی حکومت چین سے بہترین تعلقات کی خواہشمند ہے اور امید رکھتی ہے کہ چین اسے اقتصادی آسانیاں فراہم کرے گا۔ چین کے وزیر خارجہ نے فوری طور پر اس اعلان کا مثبت جواب دیا ہے۔ امریکہ اور چائنا سرد جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں، امریکہ اس وقت فوجی اور سیاسی جنگ ہار چکا ہے، چین اس وقت افغانستان کو متبادل راستہ دینے کی پوزیشن میں ہے جیسے اس نے سات سال پہلے پاکستان کو دیا اور چین کے اس عمل میں روس، ترکی اور ایران بھی شامل ہو سکتے ہیں اس سے یقیناً امریکہ اور یوروپین یونین کو دھچکا لگ سکتا ہے اور چپقلش کے نئے سلسلوں کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ایک نیا جیوپولیٹکل منظر ابھرنے کے واضح آثار شروع ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت یورپ اور امریکہ کے درمیان ایک نیا توازن قائم ہونا شروع ہو کیونکہ برطانیہ کہہ چکا ہے کہ ہمارے رابطے طالبان کے ساتھ قائم ہیں۔ مغربی میڈیا بھی اس کی نشاندہی کرتا ہے، لندن کے رائل یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل مالکوم شالمر کا بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ بائیڈن ایڈمنسٹریشن نے ہم سے اپنے اس فیصلے پر مشورہ نہیں کیا کہ وہ اگست میں فوجیوں کا انخلاءافغانستان سے کریں گے اور اس نے یورپ پر اچھا تاثر نہیں چھوڑا ہے۔ برطانیہ طالبان کے ساتھ ساتھ فرانس اور جرمنی بھی مکمل رابطے میں ہے۔ افغانستان کے معاملے پر اور یورپ کے یہ خبریں آرہی ہیں کہ افغان حکومت کے وجود میں آنے کے بعد اس پر بغور نظر ڈالی جائے گی کہ یہ کہاں تک ایک وسیع البنیاد اور مخلوط حکومت ہے اور اس کے دستور میں انسانی بنیادی حقوق کو کس درجہ پر رکھا گیا ہے۔ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کے مطابق اب ایک نیا باب شروع ہو گا۔ جنگ ختم ہو چکی، اب سفارت کاری پر توجہ دی جائے گی، ایک نئی ٹیم کی تشکیل ہو گی اور دوحہ قطر میں کام جاری رہے گا۔ اگر تمام صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو امریکی انخلاءاور طالبان کے قبضہ پر دوحہ مذاکرات کا عکس نمایاں ہوتا ہے اس تمام عمل میں دونوں فریقین یعنی طالبان اور امریکہ نے ان تمام شرائط پر من و عن عمل کیا ہے جو دوحہ مذاکرات میں تجویز کی گئیں اور جن پر آمادگی ظاہر کی گئی۔ دوحہ میں یہ بھی طے پایا تھا کہ امریکہ افغان میں قائم ہونے والی نئی حکومت کی معاشی معاونت کرے گا۔ اس وقت امریکہ نے یہ جائزہ لینا شروع کردیا ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 30 لاکھ افغانیوں کے لئے کون سا ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے جو ان کو کچھ ریلیف دے سکے۔ امریکہ یہ بھی سوچ رہا ہے کہ پابند صرف طالبان پر لگائی جائے یا پورے افغانستان پر۔ امریکی ٹریژری نے ایسی انجمنوں سے رابطے شروع کر دیئے ہیں جو افغانستان آبادی کو سہولتیں فراہم کرنے کے خواہاں ہیں، اگست کے آخری ہفتے میں ایسے پرمٹ جاری کئے گئے ہیں اس قسم کی انجمنوں کو جو اس سے قبل شام اور وینزویلا میں فلاحی کام کرچکی ہیں۔
امریکہ افغانستان میں 20 سال موجود رہا اور بالواسطہ طریقے سے افغان حکومت میں شمولیت رکھی۔ اس کے باوجود کہ ٹرمپ اور امریکن انتظامیہ افغانیوں کے کرپشن پر نتکہ چینی کرتے رہے مگر افغان عوام کو یقیناً ان کی موجودگی سے ریلیف ملا۔ اس وقت افغانستان میں بے شمار میڈیا ادارے کام کررہے ہیں، اقلیت اور خواتین کو آزادانہ فضا میسر آئی اور ان کے حقوق پر توجہ دی گئی۔ افغانستان دہشت گردی اور طالبان کے حملوں کے باوجود بیرونی دنیا سے رابطوں میں رہا، افغان کی نئی نسل عالمی ماحول سے آشنا ہوئی اور نئی دنیا کے تقاضوں سے نبٹنے کی تیاریوں میں شامل ہوئی۔ افغانستان اب ایک بالکل آزاد ملک ہے۔ اب طالبان غیر ملکی قابضوں سے جھگڑنے کے بہانے افغانی عوام پر سخت پابندیاں نہیں لگا سکتے۔ 20 سال پہلے وہ صرف اپنے نظریہ کو بڑھانے کو ہی جہاد سمجھتے تھے مگر اب یہ گروپ اگر اپنے کو عالمی طور پر منوانا چاہتا ہے تو اس کو وقت کے تقاضوں کو یکسوئی سے دیکھنا ہوگا۔ اب کا افغانستان پر اپنی پالیسیوں پر مزاحمت کرے گا۔ طالبان اب تک صرف جنگجو رہے ہیں، حکومت اور نظام حکومت ایک بڑا امتحان ہے اور مشکل ترین۔ امریکہ نے افغان حکومت کے 9 ارب ڈالر منجمد کردیئے ہیں۔ آئی ایم ایف نے 460 ڈالر کی امداد اروک دی ہے۔ مجموعی طور پر بیرونی عالمی امداد رک گئی ہے۔ اقتصادی طور پر فی الحال یہ ایک گمبھیر مسئلہ ہوگا۔ افغانستان سے اس وقت کثیر تعداد میں شہریوں نے جلاوطنی اختیار کی ہے ان میں زیادہ تر اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کسی نہ کسی طور پر امریکن کیمپوں سے وابسطہ تھے ان میں ہر قسم کے ہنرمند افراد شامل ہیں۔ افغان حکومت اس مسئلہ پر دشواریوں کا شکار ہو گی۔ روزمرہ کی نظام چلانے کے لئے حکومتوں کو ہنرمند افراد درکار ہوتے ہیں۔
افغان حکومت نے اپنی نئی عبوری کابینہ کا اعلان کردیا ہے۔ محمد حسن اخوند قائم مقام سربراہ ہوں گے جب کہ ملا عبدالغنی برادر سرپرست خصوصی وزراءہوں گے۔ یہ پوری کابینہ وقتی طور پر عنان حکومت سنبھالے گی تاکہ افغانستان میں روزانہ کی بنیاد پر زندگی بحال ہو سکے اور حکومت کے کام انجام دیئے جا سکیں۔ عالمی طور پر ردعمل سامنے آئے گا۔ اس عبوری حکومت کی تشکیل پر نظرثانی کے بعد فیصلے ہوں گے کہ کس حد تک افغان کی نئی حکومت سے تعلقات استوار کئے جا سکتے ہیں اس وقت مغربی میڈیا اضطراب کی کیفیت سے گزرے گا اور ہر قسم کی تھیوریز پر بحث شروع ہوگی۔ عمومی طور پر افغانستان کو 14 مختلف قبیلوں کا مجموعہ گردانا جاتا ہے۔ جائزہ لیا جائے گا کہ کیا ایک مخلوط حکومت قائم ہوسکتی ہے اور کیا مستقبل میں بننے والی حکومت میں اس کے آثار ہیں اور کیا یہ عبوری حکومت ان تمام اصلاحات کو یقینی بنائے گی جس کا اعلان پچھلے تین ہفتوں سے ذبیح اللہ مجاہد طالبان کے ایما پر کرتے آرہے ہیں۔ افغانستان کے ہمسائیوں کے لئے بھی اس وقت ایک انتہائی مربوط اور مضبوط لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت پڑے گی۔ اس وقت 12000 دہشت گردوں کی افغانستان میں موجودگی کی خبریں ہیں۔ عبوری حکومت کو اس تمام مشکل امور سے ذمہ داری کے ساتھ گزرنا ہوگا تاکہ عالمی طور پر اپنی حیثیت کو منوایا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں