آج کی پاکستانی سیاست اس مشہور کہاوت ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے گرد گھوم رہی ہے جو سیاسی پارٹیاں اپنی مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے احتساب اور کوسنے کے لائق ہیں وہ اپنے گریبانون میں جھانکنے کے بجائے اپنے ادوار کے سارے لوٹ مار اور منی لانڈرنگ و قرضوں اور مہنگائی کا سارا ملبہ ایک اس طرح کی نوزائیدہ حکومت پر ڈال رہی ہے جسے حکومتی بھاگ دوڑ سنبھالے مشکل سے دوماہ بھی نہیں ہوئے۔ دوسرے معنوں میں اس شیروانی پر سلوٹیں بھی نہیں پڑیں کہ اس پر حکومت کی ناکامی کا لیبل لگا دیا گیا جس شیروانی کے ایک بٹن کے لائق بھی عمران خان کو نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن عزت اور ذلت تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے وہ دے، جسے چاہے وہ رسوا کر دے، لیکن تکبر کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آیا، غرض اپوزیشن اور بکاﺅ مال میڈیا گنگا کو الٹے طریقے سے بہانے کی کوشش کررہا ہے یعنی سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکالنے کی جتن کررہا ہے جو کہ قانون قدرت کے خلاف ہے لیکن وہ ایسا کرکے یا کم از کم اس طرح کا تاثر پیش کرکے ملکی عوام کو عمران خان اور اس کی حکومت سے متنفر کرنے کی کوشش ضرور کررہے ہیں لیکن ایسا کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ 1985ءکا دور نہیں ہے یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اب تو قصبوں، دیہاتوں اور شہروں کا فرق ختم ہو گیا ہے۔ لوگوں کو پل پل کی خبریں لمحوں میں مل جاتی ہیں۔ اب معاملات اور واقعات و حقائق کو ڈھانپنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا ہے۔ اب لوگوں کے ذہنوں سے کھیلنا انہیں دھوکہ سے گمراہ کرنا آسان نہیں رہا، اس وجہ سے اپوزیشن جماعتیں اپنے زرخرید میڈیا کے ذریعے جتنا بھی زور لگا دیں وہ ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو نہیں بنا سکتے۔ وہ قرضہ لے کر اپنی تجوریوں کو بھرنے اور ملکی عوام کو مقروض بنانے والے مجرم سیاستدانوں کو اچھے اور کامیاب سیاستدان ظاہر نہیں کروا سکتے اور اسی طرح سے ملک کو قرضوں کی لعنت سے پاک رکھنے کا عزم رکھنے اور ملک کو خودمختاری اور حب الوطنی کے زیور سے آراستہ کرنے کی خواہش رکھنے والے حکمرانوں کو ناکام بھی نہیں بتلا سکتے، یہی وجہ ہے کہ مہنگائی کا واویلا مچانے والے سیاستدانوں اور ان کی آواز بننے والی میڈیا کے سارے حربے موجودہ ضمنی الیکشن کے نتائج نے ناکام بنا دیئے اس لئے کہ جس انداز سے پاکستانی میڈیا نے اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی نوزائیدہ حکومت کی جانب موڑ دیا تھا اس کا تو یہ اثر ہونا تھا کہ حکمران پارٹی کو اس ضمنی انتخابات میں کوئی ایک بھی نشست نہیں ملتی مگر وہ تو سب سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہونے والی پارٹی بن کر ابھری حالانکہ ان کے مقابل ملک بھر کی ساری پارٹیاں اکٹھی ہو کر مقابلہ کررہی تھیں جو چالیس پچاس سالوں سے سیاسی میدان میں سرگرم ہیں اور خود عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کو معرض وجود میں آئے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن یعنی صرف 22 سال ہی ہوئے ہیں اس طرح سے یہ عمران خان کی جیت اور ملکی عوام کا ان پر اندھا اعتماد نہیں تو اور کیا ہے؟ اس کے باوجود ملک بھر کی سیاسی پارٹیاں اور ان کا حامی میڈیا ملکی عوام کو صورتحال کی عکاسی اپنے زاویے سے کررہا ہے اس لئے کہ ان کی نظروں میں پاکستانی عوام گھاس کھاتے ہیں اور انہیں حقیقی صورتحال کو سمجھنے کا کوئی ادراک یا فہم نہیں ہے حالانکہ یہ درست نہیں ہے بلکہ ملکی عوام تو سیاستدانوں کے ساتھ میڈیا کے ایمان کو بھی اچھی طرح سے جان چکے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ان پر ملکی میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کا بھی کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔ عوام جان چکی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما اقتدار میں صرف اپنی جیبیں بھرنے اور ملک کو کنگال اور ملکی عوام کو مقروض کرنے کے لئے آتے ہیں۔ موجودہ حکومت پر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر اس طرح سے تنقید کی جارہی ہے جیسے عمران خان اور ان کی حکومت پر کرپشن کے الزامات ہوں اور وہ آئی ایم ایف سے پہلے بھی قرضے لے کر عوام پر اور ملک پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی تجوریاں بھرتے رہے ہوں۔ شرم نہیں آتی ان سیاسی جماعتوں اور ان کے شریک جرم میڈیا یا گروپس کو۔۔۔۔ یعنی جو کام زرداری کو نواز شریف کی حکومت کے خلاف کرنا چاہئے تھا یا جو کام نواز شریف کو زرداری کی حکومت کے خلاف کرنا چاہئے تھا وہ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف ان کے ادوار میں نہیں کیا کیونکہ دونوں کا نصب العین ایک ہی تھا۔ دونوں غیر ملکی قرضہ ہڑپ کرکے ملک کو قرضوں میں دھکیلنے کے کام پر مامور تھے اس لئے وہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے کرپشن کی نشاندہی یا انہیں بے نقاب کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو سہارہ دیتے رہے اور اب جب عمران خان کی حکومت نے ان دونوں سیاسی پارٹیوں کے خلاف کرپشن کے الزام میں ہی نیب کے ذریعے تحقیقات شروع کروا دی ہیں تو دونوں پارٹیاں مل کر گلا پھارٹے ہوئے عمران خان کی مخالفت کررہی ہیں اور عمران خان کی دو ماہ کی حکومت سے پورے پانچ سالوں کا حساب مانگ رہے ہیں اس طرح سے کرکے وہ ایک طرح سے ناکردہ گناہوں یا خطاﺅں کی سزا عمران خان اور ان کی حکومت کو دے رہے ہیں جو کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔
یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ ملکی عوام کو اصلیت کا علم ہے اس لئے وہ ان کے بہکاوے میں نہیں آرہے ہیں، سابقہ حکومتوں کی لوٹ مار اور مصنوعی طریقے سے روکی جانے والی مہنگائی کے سر اٹھانے سے ہی اپوزیشن کو فائدہ اور موجودہ حکومت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لئے عمران خان کو چاہئے کہ وہ اس طرح کی حکمت عملی اپنائیں کے جس سے مہنگائی کا سلسلہ فوری طور پر نہ بڑھے اور نہ ہی متوسط طبقے پر کسی بھی طرح کا کوئی اثر پڑے ورنہ مہنگائی کی صورت میں اپوزیشن اور ملکی عوام میں حائل خلیج ختم ہو جائے گی اور بلاوجہ ملکی عوام کی آواز ان چوروں کی آواز میں شامل ہو جائے گی اس لئے عمران خان اس نقطے پر خاص توجہ دیں اور اپنی حکومت کو عوامی مخالفت سے بچانے کی کوشش کریں۔
