ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم 96 سال کی عمر میں 70 سال حکمرانی کرنے کے بعد گزشتہ ہفتے 8 ستمبر 2022ءکو اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئیں۔ 1952ءمیں تخت برطانیہ پر متمکن ہونے والی الزبتھ نے نوعمری میں اپنے والد کے اچانک ختم ہو جانے کے بعد یہ ذمہ داری اپنے کاندھوں پر سبھالی۔ اپنے 70 سالہ دور حکومت میں انہوں نے 15 وزیر اعظموں کے ساتھ کام کیا۔ ونسٹن چرچل سے لے کر نومنتخب وزیر اعظم لزٹرس تک جنہیں ملکہ نے اپنی وفات سے دو دن قبل خوش آمدید کیا۔ اپنی 96 سالہ زندگی میں ہمیشہ الزبتھ دوئم نے ایک مضبوط خاتون ہونے کا تاثر دیا۔ زندگی کے بے شمار اتار چڑھاﺅ سے بردباری سے نبرد آزما ہوئیں۔ ذاتی زندگی اور حکمران کے طور پر ان کی شخصیت میں ٹھہراﺅ ہمیشہ نمایاں رہا۔ نہ صرف برطانیہ بلکہ عالمی طور پر بھی اس حقیقت کو دھندلانے میں وقت لگے گا کہ پچھلی 7 دہائیوں سے تاج برطانیہ کا تصور آتے ہی جو شبیہہ سامنے آجاتی تھی وہ اب نئے بادشاہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ شہزادہ چارلس 73 سال کی عمر میں ایک طویل عرصہ منتظر رہنے کے بعد برطانیہ کے نئے بادشاہ منتخب ہو چکے ہیں۔
تاج برطانیہ دنیا کے کئی براعظموں میں کسی نہ کسی صورت موجود رہا ہے اس کی حکومت اور اجارہ داری زمانہ قدیم ہی سے بیشتر علاقوں پر محیط رہی ہے۔ قدیم برطانوی راج سے لے کر ماضی قریب تک عالمی سیاست پر اس کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں جس کی نشانیاں نہ صرف سیاسی بلکہ زمینی حدود میں جا بجا موجود ہیں۔ اس وقت جہاں ملکہ کے گزر جانے کا دُکھ نظر آرہا ہے وہیں گزرے ہوئے ان واقعات پر جو پچھلے 70 سالوں اور اس سے قبل کی برطانوی حکومتوں میں رونما ہوئے کا تاسف بھی دہرایا جارہا ہے۔ حکومتیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں، اقوام عالم کے احساسات حکومت برطانیہ کی نسبت سے ہمیشہ متنازعہ رہے ہیں۔
حکومت برطانیہ کی بنیاد 1541 میں آئرلینڈ میں پڑی۔ 1607ءمیں شمالی امریکہ میں جیمز ٹاﺅن پہلی انگریز آبادی تھی۔ 1707ءمیں اسکاٹ لینڈ اور انگلستان متحد ہوئے۔ اس وقت اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کی پارلیمانوں نے ایکٹ آف یونین منظور کرکے باہم ہوئے۔ 1800 میں آئرلینڈ نے بھی ایک ایسے ہی ایکٹ کے ذریعے برطانیہ عظمی اور آئرلینڈ کی سلطنت متحدہ قائم کی۔ برطانیہ ایک آئینی بادشاہت ہے۔ آج جو پارلیمانی نظام دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے اس کی داغ بیل برطانوی قدیم ادوار میں ہی ڈالی گئی۔ 40 سال سے قائم دولت مشترکہ بھی ان 53 ممالک پر مشتمل ہے جہاں عرصہ دراز تک برطانوی جھنڈا لہراتا رہا۔
برطانوی ایسٹ کمپنی نے سلطنت برطانیہ کے پھیلاﺅ میں ام کردار ادا کیا۔ 1600 میں یہ کمپنی مغلیہ دور میں ہندوستان میں تجارت کی غرض سے داخل ہوئی۔ 1857ءتک ہندوستان مکمل طور پر برطانیہ کی ایک کالونی کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ مغربی دنیا اور افریقی اقوام بھی سلطنت برطانیہ کی کارگزاریوں کے زیر اثر آئے۔ جہاں ممالک کے درمیان سرحدیں کھینچنے کے ساتھ ساتھ مقامی افراد پر مظالم ڈھائے گئے اور بیشتر اقوام اور ممالک سے نوادرات، مجسمے، ہندوستان سے سونا اور بیش قیمت جوہرات برطانیہ پہنچائے گئے جو آج شاہی دولت میں شامل ہیں۔
اس وقت برطانیہ میں تاج کی منتقلی نے بے شمار تلخ یادوں کے باب وا کر دیئے ہیں۔ الزبتھ دوئم 1952ءمیں تخت نشین ہوئیں، ان سے پہلے کی حکومتوں کے طرز عمل اور زیادتیوں پر انہوں نے کئی موقعوں پر تاسف کا اظہار کیا۔ ہندوستان کے دورے کے موقع پر انہوں نے انگریز جنرل کے حکم پر امرتسر کے ایک باغ میں گھیر کر مارے جانے والوں کے لواحقین سے اظہار افسوس کیا۔ آئرلینڈ کے اپنے آخری ایام کے دورے کے دوران بھی اس بات کا احساس دلایا کہ وہ ماضی کے گزرے ہوئے واقعات کے بارے میں اچھے تاثرات نہیں رکھتیں۔ ملکہ الزبتھ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کی جدیدت سے آگاہی رکھنے والی شخصیت تعبیر کی جاتی تھیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے برطانوی اثر و رسوخ میں کمی آتی جارہی تھی، کئی ملک آزادی کی جنگ لڑ کر برطانوی تسلط سے آزاد ہوتے گئے۔ سلطنت برطانیہ جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کی وسعت کے سبب وہاں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا، سکڑتی جارہی تھی۔ ابتداءکی طرح اس کا زوال بھی آئرلینڈ ہی سے شروع ہوا جہاں 1922ءمیں آئرلینڈ کے کچھ علاقوں نے علیحدگی کی شروعات کی۔ بے شمار تنازعات اس علیحدگی کا باعث بنے۔ دوسری جنگ عظیم سے درحقیقت برطانوی راج کے خاتمے میں تیزی آئی جب 1953ءمیں اپنی تاج پوشی کے بعد ملکہ نے دنیا کا دورہ کیا تو ہندوستان سمیت کئی ممالک آزاد ہو چکے تھے۔ پچاس کی دہائی میں بیشتر ممالک برطانوی حکومت سے آزاد ہوئے۔ 1956ءمیں مصر سے مشہور نہر سوئیز کا تنازعہ کھڑا ہوا اس سلسلے میں برطانیہ کو ہزیمت اٹھانی پڑی جس سے برطانیہ کے اندر بھی حکومتی طور پر خلفشار کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی عوام نے بھی اب کئی پہلوﺅں سے شاہی خاندان اور شاہی دربار کے طور طریقوں اور آداب پر تحفظات ظاہر کرنے شروع کئے۔ وقت کی نئی کروٹ کو تسلیم کرتے ہوئے لفظ ”مونارکی“ کو تبدیل کرکے ”رائل فیملی“ میں تبدیل کیا گیا۔ یہ گویا عصر نو کی طرف قدم بڑھانے کا لائحہ عمل وجود میں آیا۔
شہزادہ چارلس کی بادشاہت کے اعلان ہونے کے ساتھ عالمی سطح پر بہت سی توقعات اور امیدوں کے ساتھ سوال بھی اٹھا دیئے گئے ہیں۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ پچھلی کئی صدیوں پر محیط سلطنت برطانیہ نے جو معاملات اقوام عالم کے ساتھ کئے۔ جن کی نشاندہی نہ صرف تاریخ کے اوراق بلکہ نشانیوں کے طور پر موجود ہیں، کیا ان کا اعادہ کیا جا سکتا ہے اور کیا ایسا ہو گا۔ نئے بادشاہ چارلس سوئم کا عام تاثر ایک دوستانہ مزاج رکھنے اور ایک وسیع النظر شخصیت کا ہے۔ وہ شاہی خاندان کے پہلے فرد ہیں جنہوں نے یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد مختلف امدادی کاموں کے علاوہ ماحولیات اور جدید عصری تقاضوں پر فکر انگیز کردار کی عکاسی کی ہے۔ اپنی تاج پوشی سے قبل ہی وہ آئرلینڈ کا دورہ کرکے مفاہمت کی امید کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ برطانوی عوام ابھی تک گو کہ ان کے اور لیڈی ڈیانا کی ازدواجی ناکامیوں کی ذمہ داری ان پر ڈالتے ہیں مگر کچھ نرم گوشے بھی اب سامنے آرہے ہیں۔ شاید برطانوی انہیں اپنے لئے پسندیدگی قائم کرنے کا ایک اور موقع دینے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ عالمی طور پر برطانیہ کے تعلقات کی نہج پر جائیں گے اس کا تعین آئندہ کچھ ہفتوں میں کیا جائے گا جب ایک نیا بادشاہ اور ایک نئی وزیر اعظم حکومتی امور کی انجام دہی میں شریک ہوں گے۔
175