23 مارچ 1940ءکو اقبال پارک میں منعقدہ اجلاس میں جس قرارداد لاہورکو پیش کیا گیا اس کی تکمیل کے زینے چڑھنا اور پھر اس قرارداد کو عملی شکل میں منزل پاکستان تک پہنچانا جان جوکھوں کا کام تھا۔ آج جس آزاد ملک کی فضا میں ہم سانس لیتے ہیں، خوشیوں کے ہنڈولے میں دن رات جھولتے ہیں، سنگ سنگ قومی، مذہبی تہوار مناتے ہیں وہ تمام کاوشیں ایک تنہا شخص کی ذاتی صلاحیت اور وقف زندگی کا مرہون منت ہیں، جس کے لئے کسی شاعر نے خوب کہا ہے
وہ اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل
مگر لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
پاکستانی قوم ہر سال اس دن کی یاد منانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ سڑکوں، عمارتوں کی سجاوٹ، ریلیاں، جلسے جلوس، پریڈ اس دن کا خاص حصہ تصور کیے جاتے ہیں لیکن اس تزئین گلستان میں کتنی ہستیوں نے اپنے خون سے اس باغ کو سینچا، کوئی اس کا ادراک نہیں کر سکتا۔ گویا پاکستان کی روح کو لفاظی پوشاک پہنا کر ہر بازار، چوراہے، سڑک، عمارت، گلی، محلہ میں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن روح کے زخموں کو کوئی نہیں دیکھتا۔ ڈکیتی، چوری، اغواءکاری، زنا بالجبر، جھوٹ، تشدد، لوٹ مار، دہشت گردی یہ تمام زخم ہی ہیں جو میرے پاکستان کی روح کو زخمی کرتے ہیں۔ یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ جب اولاد اچھا کام کرے، والدین جو دنیا سے رُخصت ہو جاتے ہیں اس کا ثواب مغفرت بن جاتا ہے۔ ان والدین کے لئے جو منوں مٹی تلے جا کر سو جاتے ہیں۔
کیا میرے قائد کی روح بے چین نہ ہوگی؟ تڑپتی ہوگی، چلاتی ہوگی۔۔۔ کیا اسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا؟ میرے محبوب قائد نے۔ ہم ان کے احسانات، بدلہ، نفرت، کج روی، بداخلاقی سے دنیا اپنا اوّلین فرض سمجھتے ہیں۔ غیروں کے آگے جھکنا ، مالی امداد طلب کرنا، اخلاقی گراوٹ میں جہالت کی تاریکیوں میں گوشہ نشینی اختیار کرنا، بدکاری اور جھوٹ کی بیساکھیوں کا سہارا لے کر اپنی تشنہ آرزوﺅں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا، کیا یہی ہماری ذمہ داری ہے۔ ملکی املاک کو نقصان پہنچانا، جمہوری اقدار کو پاﺅں تلے روندنا، غیر اقوام میں اپنا امیج خراب کرنا۔ اسلامی اقدار کی نفی کرنا، فرقہ واریت، تشدد پسندی، سیاسی جوڑ توڑ کی شوگر کوٹڈ گولیاں سر عام تقسیم کرنا۔ کیا یہی قرارداد پاکستان کا حق ادا کرنا ہے۔ قائد کے احسانات کا بدلہ ہم سے زیادہ اچھا کون دے سکتا ہے۔
1947ءسے لے کر ترقی کا معیار مہنگائی، اشیا میں ملاوٹ، سود خوری کا محتاج بن کے رہ گیا ہے۔ یہ ملک غربت کی لکیر کے نےچے اپنی بقاءکو قائم رکھنے کے لئے ہاتھ پاﺅں مار رہا ہے لیکن اس کے برعکس دوسرے ممالک میں اپنا اثاثہ منتقل کرکے سرمایہ کاری کا فروغ پروان چڑھانا چاہ رہا ہے۔ اصل اثاثہ تو یہ پاکستانی نسل ہے جس کے کاندھوں پر آئندہ نسل کی کامیابی کا بوجھ اور ذمہ داری ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کردیا۔ خدا کے حضور اپنا مقام پالیا۔ لیکن ان کے جانشینوں نے کیا کردار ادا کیا۔ اس سلطنت کو بچا سکے یا وقت کی تیز و تند لہروں کے سپرد کردیا۔ قائد نے اس مٹی میں ازادی کا سانس لینے کے لئے تن تنہا دن رات محنت کی، دشمنوں سے ذور آزمائی کی۔ اپنی بصیرت اور ذہانت سے محنت اور جانفشانی سے اپنی طاقت کا لوہا منوایا، پاکستان حاصل کرکے دم لیا۔ لیکن ہم نے آپ سب نے اس کو بچانے اور قائم رکھنے کے لئے آج تک کیا کیا۔ کیا ہم خدا کو مثبت جواب دینے کے قابل ہیں کہ ہم نے اپنے تئیں اپنا فرض پورا کیا۔ ہم نے مدرسوں کی آڑ میں دہشت گردی کو فروغ دیا۔ ہم نے کم سن معصوموں کے ہاتھ میں بندوق تھما دی۔ انسان کو انسان سے لڑوایا۔ تعصب کی چھری سے سب کے گلے کاٹے۔ امیر بننے کے خواب دکھا کر لوٹ کھسوٹ کو شیوہ مردانگی بنا دیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل اس ملک کی باگ دوڑ کی رسی اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے علمی، اخلاقی، روحانی خیالات کو فروغ دیں۔ مذہب اور سیاست کو الگ الگ خانوں میں رکھیں۔ اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لئے قائد کے ان الفاظ ”کام، کام اور بس کا“ کی مالا ہر حال میں جھپتے رہیں۔ ایک مثالی قوم بن کر دنیا کے افق پر چمکیں، اتحاد باہمی سے دشمنوں کو زیر کریں، نسلی، مذہبی، لسانی، معاشی معاشرتی تعصبات کو ایک کنوئیں میں بند کرکے دفن کردیں۔ ماضی کے روشن پہلوﺅں کو سامنے رکھیں۔ تجدید عہد وفا کی رسم ہر سال پوری کریں اور یہ رسم ہ، محبت، اخوت، قربانی، صبر، ایثار، عاجزی، انکساری، محنت، جوانمردی کیی مکمل تصویر۔
894