حکومت مخالف بازی گر ایک بار پھر یکجا ہو رہے ہیں۔ حکومت کے خلاف کریک ڈاﺅن کا عمل شروع کرنے کے لئے میٹنگ کا آغاز جلد ہورہا ہے۔ یعنی اپوزیشن نے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس کی ابتداءمیں مولانا فضل الرحمن نے لیڈ لی ہے اور اے پی سی بلانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ پیپلزپارٹی بھی پیش پیش ہے جب کہ مسلم لیگ ن تذبذب کا شکار ہے کیونکہ اب نواز شریف تھکے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ مریم نواز بھی پردہ سیمیں سے غائب ہیں اور شہباز شریف بھی سہمے سہمے دکھائی دیتے ہیں۔ آصف علی زرداری کے خیال میں وہ پریشر کی حکمت عملی کے ذریعہ اپنے خلاف ہونے والے ایکشن کو روک سکیں گے۔ یاد رہے کہ آصف علی زرداری کا ہمیشہ یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب کبھی ان کے اوپر ہاتھ ڈالنے کا موقع آیا انہوں نے دھمکیاں دے کر خود کو مشکل صورتحال سے نکالا اور یہی Tectics وہ ایک بار پھر دہرانے جارہے ہیں۔ ویسے ان بازی گروں کے بیانات پر ہنسی آتی ہے کہ خورشید شاہ فرماتے ہیں وہ حکومت کے قرض لینے پر خوش نہیں ہیں کیونکہ ہمیں اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا ہے۔ انہیں اس بات کا ذرا ادراک نہیں کہ وہ عرصہ دراز سے حکومت کی اعلیٰ وزارتوں میں رہے ہیں۔ انہوں نے تو عوام کو پیروں پر کھڑا کرنا تو درکنار عوام کے پیروں کے نیچے سے زمین ہی کھینچ لی۔ عوام کا سانس لینا دشوار کردیا۔ کم از کم موجودہ حکومت کا یہ کارنامہ تو یاد رکھنا چاہئے کہ جس کے خوف سے آج آصف علی زرداری کو تھرپارکر کے حالات درست کرنے کا خیال آگیا۔ اور انہیں تھرپارکر کے مسائل میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ دوسری جانب احسن اقبال فرماتے ہیں کہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ صرف دو ماہ میں ان کے منہ سے کیسے کیسے سچ نکل رہے ہیں۔ وہ سچ جو یہ کبھی اپنے پارٹی لیڈران کے سامنے نہ بول سکے۔ مگر اب ان سب کی زبانیں گز گز بھر کی ہوچکی ہیں اور موجودہ حکومت پر اس قدر بے شرمی سے تنقید کررہے ہیں کہ الامان الحفیظ۔
آپ موجودہ حکومت پر تنقید کریں نہ کریں مگر ایک بات ضرور ہے کہ ان پرانے فرعونوں کے چہرے پر فکرات نمایاں ہیں اور یہ خوفزدہ ہو کر اے پی سی کے ذریعہ اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں یہاں اگر سپریم کورٹ نے معاملات کو طول دیا اور بروقت فیصلے نہ کئے اور ان شیطانوں کو ایک بار پھر بازی اُلٹنے کا موقع مل گیا تو پھر پاکستان کو تباہی سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ یاد رہے کہ حکومتی ارکان ہوں یا اپوزیشن، یہ جان لے کہ اب عوام باشعور ہے۔ ملک کا نوجوان طبقہ اور سوشل میڈیا نہایت فعال ہے۔ اب کوئی جج، صحافی، سیاستدان ہو یا بیوروکریٹ غلطی کرے گا بچ نہ پائے گا۔ ہر خبر پلک جھپکتے میں عوام کے سامنے ہوتی ہے اور اب عوام بول رہے ہیں، ابھی بول رہے ہیں، کل روڈ پر نکلیں گے اور ان کے ہاتھ ان کرپٹ حکمرانوں کے گریبانوں پر ہوں گے۔ چنانچہ اب بھی وقت ہے بازی گروں کو ہوشیار ہو جانا چاہئے اپنا احتساب آپ کریں ورنہ آنے والا وقت شاید انہیں بھاگنے بھی نہ دے۔ مشتری ہوشیار باش۔
655