عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 601

بلا تفریق احتساب کی حقیقت۔۔۔

جو لوگ بھی یہ نعرہ لگاتے ہیں یا پھر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ”احتساب سب کا ہونا چاہئے، احتساب کراس دا بورڈ ہونا چاہئے“۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ واقعی سب کا کڑا احتساب ہو بلکہ وہ تو احتساب کے اس عمل کو اس نعرے یا مطالبہ کے ذریعے رکوانا چاہتے ہیں یا اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ اس طرح کا مطالبہ اور نعرہ لگانے والے کس منطق اور دلیل کے تحت سیاستدان جنرل، جج اور بیوروکریٹ کو ایک ہی قطار میں کھڑے کرکے ہم پلا بنانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی کسی بھی لحاظ سے ہم پلا نہیں۔ آئینی، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے سیاستدان بھی حاکم بن سکتا ہے اور باقی سب کے سب اس کی رعایا۔ یا دوسرے لفظوں میں اس کی محکوم۔ کیا حاکم اور محکوم کو آپ ہم پلا کہہ سکتے ہیں؟ انہیں ایک قطار میں کھڑے کر سکتے ہیں؟ باکل بھی نہیں۔ تو پھر اس طرح کے مطالبے اور نعرے کا مقصد عوام کو گمراہ کرنا یا بے وقوف بنانا نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس طرح کا مطالبہ اور نعرہ لگانے والے عامپاکستانی شہری نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو عرصہ دراز سے پاکستانی ایوانوں سے چمٹے ہوئے ہیں جو اقتدار کے کھیل کو بہت قریب سے دیکھ چکے ہیں جنہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ان کے اس طرح کے مطالبے اور نعرے کا اصل مقصد کیا ہے؟ وہ یہ جانتے ہیں کہ جن کے خلاف احتساب کرنے کا وہ نعرہ لگا رہے ہیں چونکہ وہ با اثر اور طاقت ور لوگ ہیں اس لئے ان کے خلاف احتساب کرنا کمزور سسٹم کے بس کی بات نہیں۔ اس طرح سے ان کے مہربانی کے طفیل سیاست دانوں کی جان بھی اس بے رحم احتساب سے چھوٹ جائے گی اس طرح کے مطالبے کا مقصد ہی دوسرے معنوں میں بلیک میلنگ کے انداز میں رہائی یا نرمی کے لئے بھیک مانگنا ہے۔ یہ تو اس مطالبے اور نعرہ کا پس منظر تھا اب دوسری جانب آتے ہیں کہ میں ان سب کو ہم پلا کیوں نہیں خیال کرتا اور سب سے پہلے سیاستدانوں کے احتساب پر زور کیوں دیتا ہوں؟ میرے خیال میں ساری خرابیوں کی جڑ سیاستدان ہیں اگر ان کا کڑا اور بے رحمانہ احتساب ہو جائے تو باقی سارے ادارے اپنی اوقات پر آجائیں گے، نہ جانے یہ کس منہ سے یہ کہتے رہتے ہیں کہ ”پارلیمنٹ ایک سپریم اداہ ہے“ گرچہ یہ بات ہر لحاظ سے درست ہے لیکن یہاں یہ سولا پیدا ہوتا ہے کہ اسے سپریم کس نے بنانا ہے؟ جو آدمی جس گھر کا مکین ہو اسے خوبصورت، بدصورت اور مضبوط اور کمزور بنانا یا کرنا تو اس کی ذمہ داری ہوتی ہے جو اس میں رہتا ہے اس لئے اگر پارلیمنٹ سپریم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس میں رہنے والے بھی سپریم ہیں اور اگر پارلیمنٹ ریت کا گھروندا ہے جو ہوا کے جھونکے سے گر جائے گا تو پھر اس کے گرنے کی ذمہ دار ہوا نہیں بلکہ اس میں رہنے والے ہی ہیں۔
بات بڑی سیدھی اور سادھی سی ہے کہ پارلیمنٹ کے مکینوں کو نہ تو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور نہ ہی ذمہ داریوں کا ادارک۔ وہ جس مقصد کے لئے اس پارلیمنٹ کا حصہ بنتے ہیں اس کام کو کرنے کے انہیں بہیترے تجربے حاصل ہیں اسی لئے خود کو ان معاملات سے دور رکھنے کے لئے ہی وہ بلا احتساب کا نعرہ اور مطالبہ کرتے ہیں۔ میں ایک بار پھر یہ بات زور دے کر دہرا رہا ہوں کہ اصل احتساب ہی سیاستدان کا ہونا چاہئے۔ اس لئے کہ سیاستدان نے قوم کی رہنمائی کرنا ہوتی ہے۔ اس کے ذمہ انسان سازی، قوم سازی کرنا ہوتا ہے۔ انہیں ملک کو کوئی سمت دینا ہوتا ہے اگر قوم کی رہنمائی کرنے والا خود ہی لوٹ مار میں لگ جائے تو پھر اس قوم کا کیا بنے گا؟ یہ ہی اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ قانون بنانے والے خود قانون سے کھلواڑ کرنے لگے۔ خود قانون کا مذاق اڑانے لگے۔ کس طرح سے یہ ریاست چلے گی۔ جہاں قانون بنانے والے خود قانون کی بے توقیری کا باعث بن رہے ہیں۔ تین بار وزیر اعظم کے منصب پر رہنے والا نواز شریف تیسری بار گرفتار ہو کر جیل چلا گیا اور اب ان کی جماعت نیب اور عدلیہ میں اصلاحات لانے کا مطالبہ کررہی ہے۔ خود 35 برسوں تک حکومت میں رہنے کے دوران انہیں کبھی بھی ان ملکی اداروں میں کسی طرح کی کوئی خرابی نظر نہیں آئی جو اس میں قانون سازی کے ذریعے ردوبدل کرلیتے لیکن جونہی ان کی دم پیروں کے نیچے آگئی تو انہوں نے شور مچانا شروع کردیا۔ ایوان کے اندر اور باہر سے بلاتفریق احتساب کی گونج آنا شروع ہوگئی ہے۔
میں کالم کی ابتداءمیں ہی یہ عرض کرچکا ہوں اس طرح کے مطالبہ اور نعرے کا مقصد ہی نرمی اور رعایت کی بھیک مانگنا ہے اسی کو دوسرے لفظوں میں کہتے ہیں کھانا اور غرانا۔ اس طرح سے وہ شور بھی مچا رہے ہیں اور بھاگنے کا راستہ بھی مانگ رہے ہیں۔ میرے ایک قریبی دوست چوہدری رمضان کا وائس اپ میسج آیا کہ میاں محمود نواز شریف نے این آر او کے لئے بھاگ دوڑ شروع کردی ہے۔ جب کہ حکومت کی جانب سے بھی چند اہم شرائط رکھی گئی ہیں جس میں پانچ ارب ڈالرز اگلے 45 روز میں سرکاری خزانے میں جمع کرانا اور اسحاق ڈار سمیت تمام مفرور مجرموں کو پیش کرنا اور نواز شریف کا اپنے جرائم کو تسلیم کرنے کی شرط شامل ہے۔ میرے پاس ان اطلاعات کی کوئی تصدیق نہیں ہے اسی طرح سے زرداری گروپ بھی اندرون خانہ گٹھ جوڑ میں لگا ہوا ہے۔ میری وزیر اعظم عمران خان سے اتنی سی گزارش ہے کہ وہ اپنے وعدوں کا پاس رکھتے ہوئے وہی کام کریں جس کی قانون اور آئین اسے اجازت دیتا ہے ایسا کوئی بھی کام کسی بھی دباﺅ میں آکر کرنے سے گریز کریں جس سے ملک اور قوم کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔ اسی میں ایک نیا بدلتا ہوا قائد اعظم کا پاکستان مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں