۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 792

بو، کاٹا

موجودہ دور علم اور ادب کا دور ہے۔ اب انسانی دماغ نئی نئی گھتیاں سلجھا رہا ہے، نت نئے اسرار حل ہو رہے ہیں، فلک پر پہنچ کر اب معلوم کیا جارہا ہے کہ یہاں کیا کیا راز پنہاں ہیں تو سمندر کی تہہ میں پہنچ کر اس کی اتاہ گہرائی کو ناپا گیا ہے۔ ان گنجات جنگلات کو جہاں سورج کی کرنیں نہیں پہنچ سکتیں انسان اپنے علم کی روشنی سے اسے منور کررہا ہے۔ صحراہ کے زروں پر غور و خوص کرکے ان میں توانائی، حرارت اور ہلاکت خیزی دریافت کررہا ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں قدرت کے ان رازوں کو عیاں کیا جارہا ہے جو لاکھوں سال سے پوشیدہ تھے۔ اب انسان اوہام اور تواہم کو چھوڑ کر حقیقت کی دنیا میں رہ رہا ہے۔ اب بھوتوں اور پریتوں کا دور ختم ہو چکا ہے بلکہ اب خود انسان بدروہوں کا روپ ڈھال چکے ہیں، اب چڑیلوں کا وقت ختم ہوا ان کی جگہ انتہائی فیشن ایبل مخلوق نے لے لی ہے اور اب ان کے ہونٹ خون سے نہیں بلکہ خون چوسنے والوں کی ایجاد کردہ مصنوعات سے لال لال رہتے ہیں، اب پچھل پیریوں کا ٹائم خلاص ہوا اب یہ پتہ نہیں چلتا کہ آنے والی کا رُخ کس طرف ہے، اب ڈریکولا کا راگ ختم ہوا، اب ان کی جگہ انتہائی نستعلیق مخلوق نے لے لی ہے جن کے الگ الگ نام ہیں اور اب ان کو اپنے دو نوکیلے دانتوں کو بھی زحمت دینے کی ضرورت نہیں ہے یہ اپنے ہتھکنڈوں، منصوبوں، پلاننگ، کارپوریٹ کلچر، مونوپلی، ایجادات، تخریبات اور ترغیبات سے یہ کام انجام دے رہے ہیں، یہ بڑے مزے لے لے کر خون چوس رہے ہیں اور جس کا خون چوسا جارہا ہے وہ خوشی خوشی اب کارخیر کو انجام دے رہے ہیں۔
یہ وہ دور ہے جب کہ چنگیز خان، ہلاکو خان، فرعون اور ان جیسے خونخوار اور خون آشام سب معصوم نظر آتے ہیں بلکہ ان کی جگہ جنہوں نے لی ہے وہ ان کے استادوں کے استاد ہیں انہیں اب گھوڑوں، خچروں کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی تلوار، گزر، خنجر، تیر و کماں اور نیزوں کی ضرورت ہے، نہ انہیں محاسروں کی ضرورت ہے اور نہ خندقیں کھود کر محفوظ ہونے کی بلکہ یہ جلاد اب پس کمپیوٹر لے کر بیٹھے ہوئے ہیں، ان کے ڈرون لاکھوں کو ہلاک کررہے ہیں، ان کے پیراشوٹ والے بم ہزاروں افراد کو خاک و خون میں غلطاں کررہے ہیں، یہ عہد حاضر کے ہٹلر، مسیولینی، اسٹالن اپنے منہ شرم سے چھپائے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے جدید وارثوں نے لاکھوں افراد کو ہلاک کرنے کے جو آلات ایجاد کئے ہیں ان کا تصور وہ کبھی کر بھی نہیں سکتے تھے۔ یہ آج کے ہامان، شداد، قارون اور فرعون اپنے ان بزرگوں سے اتنے آگے ہیں کہ وہ ان کی گرد کو نہیں پہنچ سکتے ہیں، ان کے خزانوں کی کوئی حد نہیں ہے اور ان کے ذرائع اس قدر لطیف ہیں کہ نہ ملکوں کو فتح کرکے ان کے خزانے لوٹتے، نہ دشمنوں کو گرفتار کرکے انہیں غلام بناتے نہ ہی عورتوں کو پکڑ کر مصر کے بازار سجاتے اور لونڈیوں کی ہول سیل تجارت کرتے اور مردوں کو غلام بنا کر ان سے اہرام تعمیر کرانے کی ضرورت ہے بلکہ ان کے غلام اور کنیزینں سروچشم ان کے حلقہ غلامی میں ہیں اور خوشی خوشی غیر مرئی زنجیریں پہنے بیٹھے ہوئے ہیں۔
تمہید خاصی طویل ہو گئی ہے لہذا قصہ کوتاہ اس ریسرچ کے دور میں جب لونڈے اور لونڈیاں دھڑا دھڑ تحقیقات و جستجو میں مصروف ہیں اور عجب عجب کے موضوعات پر پیچ ایچ ڈی کرکے ڈاکٹر نام کے ساتھ لکھ رہے ہیں اور ایسے ایسے عنوانات گھڑ رہے ہیں کہ پڑھ کر سکتہ ہو جاتا ہے تو ان علم کے پیاسوں کو اب تک یہ موضوع برائے تحقیق نہ سوجھا کہ بھائی الطاف نے اپنی پارٹی کا نشان ”پتنگ“ کیوں رکھا؟ یہ ایسی چیز ہے کہ اگر چڑھ گئی تو آسمان پر تارا بن جاتی ہے اور کٹی تو کبھی ”کنّوں“ سے ایسی ہرجائی چیز کو پارٹی کا نشان بنا کر بھائی نے دشمنوں کو ”بو، کاٹا“ کا نعرہ لگانے کا جواز مہیا کردیا۔ یہ پتنگ بازی اگر ان شرفاءکی تہذیب میں شامل تھی جو کسی بھی ”بازی“ کو منہ نہیں لگاتے تو ایک بات تھی مگر یہ ارزل شوق تو اس خطہ میں جہاں سے بھائی کے اباﺅ اجداد تعلق رکھتے ہیں بستی اکبر آباد عرف آگرہ اور پھر محلہ ”چھیپی ٹولہ“ جہاں کہ بھائی کا ابا کا مکان آج بھی مرجع خلائق ہے یہ شوق شہیدوں کا کہلاتا ہے اور کہات ہے کہ عورتوں کے تاڑو ”گڈیاں آڑاویں“ میں وہ چھت سے غیر کی بہو بیٹیوں کو تکیں ہیں اور پتنگ پر محبت نامے لکھ کر محبوب کی چھت پر گراویں ہیں اور پھر یہ وہ چیز ہے کہ اس کا مانجھا آرانے والی کی انگلیاں اور دیکھنے والوں کی گردن کاٹ لیوے ہے، اب بھائی کی انگلیاں فگار ہیں کہ نہیں مگر کٹے گلے بہتروں کے دیکھے ہیں بلکہ سب سے زیادہ ان کے کٹے جو پیچھے چرخی لئے ہوئے ”دے ڈھیل“ کھینچ لو، بڑھاتو اور ”کاٹ لو“ کے نعرے لگاتے رہتے تھے اور پھر وہ مانجھا جس کے سوتنے میں شیشوں کی کرچیاں اور ناخونوں کے لہو کی سرخی بھی شامل تھی بلکہ سنا یہ گیا ہے باریک تار فولادی بھی مانجھے میں استعمال ہوتے تھے جن سے پیاروں کی گردن کاٹی جاتی تھی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پتنگ بازی کی ترکیب استعمال میں ایک چرخی بھی ہوتی ہے جس کے بل بوتے پر گڈی کو اڑایا جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر پتنگ لنڈوری کہلاتی ہے وہ اس کے کنّوں سے متصل ماجھے اور سادے کی مرکب بلکہ اس کی اساس ہوا کرتی ہے اور اگر چرخی الگ ہو جائے تو ڈور ہتھے سے توڑ کر پتنگ بازی کوٹھے سے زمیں پر آجاتا ہے اور یہی ہوا کہ پتنگ تو رہ گئی لونڈوں کے ہاتھوں میں اور چرخی رہ گئی لندن والوں کے حصے میں اور پتنگ کیا بھی کہا ہے جب کٹی ہوئی پتنگ لونڈے لوٹنے میں تو ثابت سلامت کسی کے ہاتھ نہیں آتی بلکہ پھٹ پھٹا جاتی ہے سو اب دیکھنا یہ ہے کہ پتنگ ثابت ہے یا پھر۔۔۔۔۔؟ سو یہ تحقیق طلب موضوع ہے اس پر ڈاکٹریٹ کرکے ڈاکٹر فاروق ستار بن جاﺅ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں