تحریک انصاف کی حکومت ایک دفعہ پھر شدید تنقید کی زد میں ہے، ترک ٹیلی ویژن کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ اگر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہتھیار ڈال دینے کا اعلان کریں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے اور وہ آئین پاکستان کی پاسداری کرتے ہوئے یہاں رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔ عمران خان نے ہمیشہ مذاکرات کو مسائل کا حل کا ذریعہ قرار دیا ہے مگر اس وقت ان کا یہ بیان قبل از وقت ہونے کا تاثر دے رہا ہے۔ جنرل مشرف کے زمانے میں بھی اس قسم کا معاہدہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر ٹی ٹی پی کی طرف سے اس کی خلاف ورزی ہوئی پھر فوجی آپریشن کرنا پڑا تھا۔ 2013ءمیں نواز شریف کی حکومت نے طالبان سے مذاکرات شروع کئے مگر ٹی ٹی پی کی طرف سے اسے کئی شقوں پر مشروط کردیا گیا اور ناکامی ہوئی۔ 2014ءمیں ایک دفعہ پھر مذاکرات کا اعلان ہوا اور اس کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی مگر یہ مذاکرات بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے۔
طالبان کے افغانستان میں حکومت میں آنے کے بعد سے پاکستان نے اس بات کی یقین دہانی پر بارہا اصرار کیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی اور ملک کے لئے دہشت گردی کے لئے کسی طور بھی استعمال نہیں کی جائے گی گو کہ افغانی طالبان بھی بظاہر اس معاملے پر تائید کرتے نظر آتے ہیں مگر وہ طالبان کے اس جھتے کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ 14 ستمبر کو پاکستانی سیکورٹی دستے پر حملہ کیا گیا اور 14 جوان شہید ہوئے۔ گزشتہ ہفتے شمالی وزیر ستان میں حملہ ہوا اور 4 جوانوں نے اپنی جان کی قربانی پیش کی، حالات یہ بتاتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور تحریک طالبان ہمیشہ ایک دوسرے کی مخالفت سے گریز کرتے ہیں جب کہ تحریک طالبان افغانستان اور تحریک طالبان پاکستان میں نمایاق فرق یہ ہے کہ اول الذکر افغانستان پر قابضوں کے خلاف برسر پیکار تھے جب کہ دوسرا پاکستان کی حکومت اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ سے مزاحمت کرتا رہا اس دوران 70 ہزار بے گناہوں کو ختم کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو کی شہادت کا اعتراف سامنے آیا۔ اے پی ایس کے معصوم بچوں اور اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا اور مستقل طور پر کسی نہ کسی صورت پاکستان کی حدود کے اندر دہشت گردی میں ملوث رہا۔ اس وقت وزیر اعظم کے اس بیان نے بہت سے اہم سوالات اٹھائے ہیں سب سے اہم تو یہ کہ کیا ٹی ٹی پی نے خود ہتھیار ڈالنے اور پرامن رہنے کے متعلق کوئی عندیہ دیا ہے؟ تحریک طالبان پاکستان درحقیقت کئی جتھوں کا مجموعہ ہے، کیا صرف کچھ جھتے اس مذاکرات میں شامل ہوں گے اگر ایسا ہوا تو کیا بقیہ جتھے پاکستان کے خلاف جارحانہ کارروائیاں جاری رکھیں گے؟ خبروں کے مطابق ٹی ٹی پی نے عمران خان کے اعلان کے بعد کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا ہے اور پھر افغان طالبان کہاں تک ٹی ٹی پی کی ذمہ داری اٹھائیں گے؟ اس کے علاوہ کیا خود افغان طالبان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ تقریباً چھ ہفتے ہونے کو آرہے ہیں طالبان کو افغانستان پر کنٹرو سنبھالے ہوئے مگر ابھی تک وہ اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کے سلسلے میں بیرونی دنیا کو ایک ابہام کی کیفیت میں رکھے ہوئے ہیں۔
مذاکرات ہمیشہ مسائل کا بہترین حل رہے ہیں اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے مگر خیال یہی ہے کہ ابھی خود پاکستانی حکومت بھی اس پر کوئی سوچ بچار نہیں کر سکی ہے ایک ایسی جماعت کے لئے معافی کا تذکرہ کرنا جو پاکستانی قوم کو بے اندازہ مشکلات اور دکھوں میں دھکیل چکی ہے، انتہائی باریکی اور سنجیدگی کا تقاضا ہے اس اعلان سے پہلے وزیر اعظم کو تمام ضروری حدود و قوائد سے گزرنا چاہئے تھا۔ تمام فریقوں کو مکمل طور پر اعتماد میں لینا چاہئے تھا اگر امریکہ 20 سال جنگ کرتے رہنے کے بعد طالبان سے مذاکرات کر سکتا ہے تو پاکستان بھی ٹی ٹی پی سے بات چیت شروع کر سکتا ہے اور ممکن ہے کہ عالمی طور پر بھی پاکستان کی اس پیشرفت کا بغور مشاہدہ کیا جائے اور اگر مثبت نتائج آئین تو اس قسم کے عمل کی پیروی کی جائے۔
بے نظیر بھٹو کے زمانے میں جنرل اسلم بیگ کے مشورہ پر بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا گیا تھا پھر اس کے نتیجے میں باغی بلوچ واپس آئے، ہتھیار ڈالے اور بلوچستان میں شہریوں کی طرح رہنا شروع کیا۔
اس وقت خطے کے حالات بدل چکے ہیں، علاقائی سلامتی تمام فریقوں کا مشترکہ مسئلہ ہے، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان دوبارہ متحد ہو رہی ہے اور پاکستان کو اس پر کارروائی شروع کرنی چاہئے، پاکستانی وزیر اعظم کا یہ بیان خاص طور پر ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب امریکی نمائندگان ایوان کانگریس میں ایک ایسا بل پاس کرنے کی کوششوں میں ہیں جس میں پاکستان کی گزشتہ بائیس سالوں کی تمام معاونت کو یکسر نظر انداز کرکے اسے پھر ایک دفعہ پابندیوں میں جکڑنے کی تجاویز شامل ہیں۔ امید رکھنی چاہئے کہ یہ بل کانگریس سے پاس نہ ہو مگر اس میں پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کا عکس ضرور نظر آتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت ایک انتہائی اہم حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ جہاں یہ حوصلہ افزاءہے کہ یورپ پاکستان سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے اور اس امر کی تائید کرتا نظر آتا ہے کہ پاکستان خطے میں اہم ترین جغرافیائی جگہ رکھنے کے ساتھ امن قائم ہونے میں کلیدی کردار ادا کرنے کا حامل ہے۔ وہیں امریکہ پاکستان سے تعلقات کے بارے میں تذبذب کا شکار ہونے کی غمازی کررہا ہے۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ انتھونی بلنکن کے حالیہ بیان کے مطابق امریکہ اپنے اور پاکستان کے تعلقات پر نظرثانی کرنے کے مراحل میں ہے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ کہیں دونوں ممالک کے مفادات میں ٹکراﺅ تو نہیں۔ بدگمانیاں دونوں طرف ہیں، ماضی میں پاکستان کے سلسلے میں امریکہ کا رویہ منصفانہ نہیں رہا ہے، اس وقت امریکی دپٹی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان کچھ معاملات کی وضاحت کرے گا کہ آیا امریکہ اور پاکستان تعلقات صرف افغانستان ہی پر مرکوز رہیں گے یا دیگر نوعیت کے تعلقات کی طرف بھی پیش رفت ہو گی۔ پاکستان یقینی طور پر اپنی ترجیحات سامنے رکھے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت بیرونی دنیا کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کا اشارہ دے چکی ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی مخالف لابی مصروف عمل ہونے کے باوجود امریکی حکومت یقینی طور پر کسی نہ کسی طرح پاکستان سے تعلقات قائم رکھنا چاہے گی۔
پنامہ پیپرز کے بعد اس کی دوسری قسط پنڈورا پیپرز کے نام کے ساتھ منظرعام پر آکر ایک دفعہ پھر پوری دنیا میں تہلکہ مچا چکی ہے۔ عالمی طور پر مشہور شخصیات اس کا حصہ بنی ہیں، روس کے صدر پیوٹن، اردن کے شاہ عبداللہ حسین اور برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر بھی اس کا حصہ ہیں۔ پاکستان سے بھی ایک کثیر تعداد اس فہرست میں شامل ہے۔ اپوزیشن کی امیدوں کے برخلاف اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم اس میں شامل نہیں۔ یہ جہاں حزب اختلاف کے لئے مایوسی کا باعث بے وہیں 22 کروڑ پاکستانی عوام کے لئے یقینی طور پر بڑی طمانیت کا سبب ہے کہ ان کا وزیر اعظم آف شور کمپنیوں کے بزنس میں ملوث نہیں۔ فہرست میں سیاستدانوں سے لے کر صحافیوں اور سابق فوجیوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ احتساب تو سب کا ہونا چاہئے، بلا امتیاز، حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دیدی ہے جس کی سربراہی خود عمران خان کریں گے اور ایف بی آر، نیب اور ایف آئی تحقیقات کا عمل انجام دیں گے۔ بنیادی طور پر آف شور کمپنیاں تجارتی فوائد کے لئے بنائی جاتی ہیں مگر پاکستان میں بدقسمتی سے اس میں کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو کرپشن کی دولت کو وہائٹ منی میں تبدیل کرنے کا عمل کرتے ہیں۔
عمران خان نے اپنی جنرل اسمبلی کی تقریر می عالمی طور پر اس کا شکوہ کیا تھا کہ ترقی پذیر ممالک شدید مشکل دور سے گزرتے ہیں جب ان کے آفس ہولڈر اپنے ممالک سے خطیر رقوم خردبرد کرکے ایسے ممالک لے جاتے ہیں جو ان سے ان رقوم کے بارے میں کوئی پازبرس نہیں کرتے بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اپنے خطاب میں پاکستانی وزیر اعظم نے ایسے ممالک کی اخلاقی ذمہ داریوں پر سوال اٹھایا تھا کہ انہیں اپنے اقدام پر نظر ڈالنی چاہئے کیونکہ اس طرح وہ نہ ایک غیر اخلاقی مرحلہ میں حصہ بنتے ہیں بلکہ ترقی پذیر ملکوں کے لئے پریشانیوں کے دروازے کھولتے ہیں۔
تحریک انصاف کے کچھ ارکان نے اس فہرست میں اپنے نام آنے کے بعد اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک احسن قدم ہے اس روایت کا خیر مقدم ہونا چاہئے۔ خود احتسابی بہتری کی طرف پہلا قدم ہوتی ہے۔ آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت امین اور صادق ثابت ہونے کا قانون سب پر لاگو ہوتا ہے۔ اس میں حکومتی ارکان اور حزب اختلاف میں تفریق کی کوئی گنجائش نہیں۔
247