Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 617

سازش

دنیا میں بے شمار بڑی بڑی سازشوں نے جنم لیا اور ان بین الاقوامی سازشوں کے نتیجے میں دنیا کے حالات یکسر تبدیل ہوگئے۔ معاشرتی، معاشی اور جغرافیائی انقلابات بھی ان سازشوں کا سبب بنے۔ موجودہ دور میں نو گیارہ کا واقعہ عراق اور افغانستان کی تباہی، یہ سب سازشوں کا نتیجہ ہیں۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس سے ملتے جلتے کئی واقعات سامنے آجائیں گے۔ مثلاً ویت نام سے جنگ اور کیوبا پر الزامات کے کئی واقعے آج کے واقعات سے کافی ملتے جلتی ہیں۔ ان کا ذکر بعد میں ہوگا۔ بین الاقوامی سازشوں میں سازشیں تیار کرنے والا سب سے بڑا ادارہ امریکن سی آئی اے ہے۔ کئی چھوٹے ممالک میں انقلابات سی آئی اے کی سازشوں سے وجود میں آئے۔ اس کے علاوہ کئی ممالک کی اندرونی سازشوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ یہ سازشیں زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہیں اور چلتی رہیں گی۔ رومن ایمپائر نیرو کی خودکشی ایک سازش تھی جب کہ وہ زندہ تھا اور روپوش ہوگیا تھا۔ ایک بڑی سازش 1962ءمیں کیوبا کے صدر فیدل کاسترو کے خلاف بنائی گئی۔ اس کے لئے ایک آپریشن کا پلان بنایا گیا اور اس آپریشن کا نام آپریشن نارتھ ووڈ رکھا گیا۔ یہ آپریشن تو پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا لیکن اس سازش کے دستاویزی ثبوت 40 سال بعد سامنے آئے۔ آپریشن کچھ یوں تھا کہ اسلحے سے بھرے ہوئے بحری جہاز کو بندرگاہ پر تباہ کرنا تھا اور جلتے ہوئے جہاز کو بندرگاہ کے اس حصے پر دھکیلنا تھا جہاں مال بردار جہاز ہوتے ہیں اور جہاں کئی انسانی جانوں کا نقصان ہوسکتا تھا اور اس واقعے کا الزام کیوبا کے صدر کاسترو پر لگانا تھا۔ یہ آپریشن بالکل اسی واقعے سے ملتا جلتا تھا جو ابھی کچھ دن پہلے عرب امارات میں رونما ہوا اور اس کا الزام ایران پر لگانا تھا۔ جس میں بندرگاہ پر پانچ بحری آئل ٹینکر تباہ ہوئے تھے۔ دوسری بڑی سازش 1965ءمیں ویت نام کے خلاف تیار کی گئی۔ 4 اگست 1965ءکو صدر جانسن نے قوم کو بتایا کہ ویت نام کی دو بوٹس اسلحے اور تارپیڈو سے بھری ہوئی امریکی بندرگاہ پر حملے کی غرض سے آرہی تھیں جن کو امریکی بحری جہاز نے تباہ کرکے غرق کردیا جب کہ حقیقت میں ایسا کوئی واقعہ وجود میں نہیں آیا تھا، یہ صرف ویت نام سے جنگ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کھیلا گیا تھا۔ امریکہ کے صدر کینیڈی کا قتل بھی ایک سازش کا نتیجہ تھا اور اس سازش کے اہم کرداروں کا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔ اس قتل کے بعد اس پر ایک ہزار کتابیں لکھی گئیں اور لوگوں نے اپنے اپنے شبہات اور نظریات پیش کئے جس میں کئی شخصیات اور اداروں کا نام سامنے آیا۔ سی آئی اے، مافیا، روس ادارہ کے جی بی، امریکہ کے نائب صدر جانسن اور کیوبا کے فیدل کاسترو لیکن اس کیس کو بھی دبا دیا گیا اور کوئی حتمی نام سامنے نہ آسکا۔ صرف ایک یہی نہیں بلکہ کئی افراد کے قتل میں جو سازشیں تیار کی گئی تھیں ان کے بارے میں کبھی بھی پتہ نہ چلا کسا۔ امریکہ کے صدر ابراہام لنکن، سیاہ فام حقوق کے لیڈر مارٹن لوتھر کنگ، ایلوس پریسلے، برطانیہ کی لیڈی ڈیانا، جارج پیٹن، ڈیوڈ کیلی اور ایسے بے شمار جن کے قتل کی سازش کرنے والے منظر عام پر نہ آسکے۔ یہ سب تو بین الاقوامی ممالک اور شخصیات کے بارے میں تھا۔ ہمارے یہاں بھی ہر دور میں سازشوں کے جال بنے جاتے رہے ہیں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کا بننا ایک بہت بڑی سازش کا نتیجہ تھا۔ اس دور کے مسلمانوں کا رعب و دبدبہ اور بہادری آج کے دور سے بہت مختلف تھا۔
انگریز اور ہندو دونوں ہی مسلمانوں سے خائف تھے اور جنگ آزادی کی تحریک میں ان کا کردار دیکھ چکے تھے۔ گو کہ قائد اعظم اور ان کے ساتھ کئی لیڈران پاکستان بننے کی اس سازش کا حصہ نہیں تھے لیکن دھوکا کھا گئے تھے۔ مانا کہ قائد اعظم ایک نہایت ہی ذہین، تجربہ کار زیرک معاملہ فہم اور عقل و دانش سے بھرپور ذہن کے مالک تھے لیکن انگریز اور ہندو اس لومڑی کی طرح تھے جس سے جنگل کے بڑے بڑے جانور بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں نے اپنی بہادری اور اپنے ایمان پر یقین سے آدھی دنیا پر حکومت کی لیکن انگریز نے صرف چالاکی عیاری اور سازشوں سے حکومت کی اور یہ سازشیں ڈھکی چھپی نہیں ہیں بلکہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ شاید پاکستان بننے کے چھ مہینے بعد ہی قائد اعظم کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ ہم لوگ ایک بڑی سازش کا شکار ہوگئے ہیں اور اس سازش میں صرف انگریز اور ہندو ہی شامل نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کی بھی کچھ کالی بھیڑیں تھیں۔ اس سازش کے نتیجے میں ہندوﺅں کو چند چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی قربانیاں تو دنیا پڑیں لیکن بقیہ ہندوستان ان کے قبضے میں آگیا اور ہندوستان کو مسلمانوں سے بچا لای گیا۔ اگر یہ تقسیم نہ ہوتی تو اس وقت ہندوستان پہلے کی طرح ایک عظیم اور طاقت ور اسلامی مملکت ہوتا جسے انگریز کی دور اندیش نگاہ نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا لیکن انگریز نے بھی تقسیم اس چالاکی سے کی کہ ہندوستان کبھی چین سے نہ بیٹھ سکے۔ ایک طرف پاکستان دوسری طرف بنگلہ دیش جو کہ پاکستان تھا لیکن مسلمہ حقیقت یہی تھی کہ ایک دن علیحدہ ہو جائے گا ایک طرف سری لنکا اور پھر کشمیر کا نا حل ہونے والا حصہ۔ اگر پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور ہندوستان میں موجود مسلمانوں کو جمع کیا جائے تو ان کی تعداد ہندوﺅں سے کئی گناہ زیادہ ہے اور مسلمانوں کے علاوہ ہندوستان میں دوسری اقلیتیں بھی کافی تعداد میں ہیں۔ اس کے بعد قائد اعظم کی وفات جن حالات میں ہوئی اسے بھی ایک سازش کا نام دیا گیا ہے کیونکہ پاکستان بنتے ہی بہت سے نا اہل لیڈران میں رسہ کشی شروع ہو گئی تھی کہ کرسی کس کے ہاتھ آئے پھر دوسری بڑی سازش لیاقت علی خان کا قتل جس کے بارے میں تاریخ آج تک خاموش ہے۔ سازشوں کے تانے بانے بنے جاتے رہے۔ پاکستان کی مثال اس ہاتھ آئے ہوئے ہرن جیسی تھی جسے تمام بھیڑئیے چیر پھاڑ دینا چاہتے تھے۔ اسکندر مرزا کا سربراہ بننا اور پھر اس کے خلاف سازش کرکے اسے ہٹانا اور ایوب خان کا صدر بن جانا یہ سب سازشوں کا حصہ تھا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایوب خان کا صدر بننا اور اسکندر مرزا کو ہٹا دینا ملک کی بقاءکے لئے ہو کیونکہ ایوب خان نے ملک کو ترقی کی طرف گامزن کیا۔ اس کے بعد بھٹو نے ایک سازش کے تحت قوم کو ایوب خان کے خلاف کیا اور اسے استعفیٰ دینا پڑا۔ بھٹو کا دور ایک بدترین دور تھا جس نے پاکستان کے مستقبل پر قفل لگا دیا۔ پھر ملک کی بقاءکے لئے ایک سازش کے تحت بھٹو کی غیر آئینی پھانسی دوسرے لفظوں میں قتل ہوا۔ پھر ایک سازش کے تحت ضیاءالحق کا قتل، اس کے بعد ایک انوکھی سازش عمل میں آئی۔ نہ جانے کس مجبوری دباﺅ یا بلیک میل ہو کر بے نظیر کو زرداری سے شادی کرنا پڑی۔ اور جب یہ شادی ختم کرنے کا وقت آیا اور زرداری کو اپنا مستقبل سیاست میں تاریک نظر آنے لگا تو اس نے بے نظیر کو راستے سے ہٹا دیا۔ اور ساتھ میں بھٹو کے جانشین مرتضیٰ بھٹو کو بھی ہٹا دیا۔ اس کے بعد زرداری سازشوں کے جال بنتا رہا اور ملک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا رہا۔ ایان علی کو پکڑنے والے اور اہم گواہ کسٹم آفیسر کا قتل، نیب کے تحقیقاتی افسر کا قتل، جج کے بیٹے کو اغواءکرکے ایان کے حق میں فیصلہ کروانا اور اب جب کہ عمران خان کے دور میں زرداری سمیت کئی اہم افراد جیل جا سکتے ہیں ایسے موقع پر نیب کے چیئرمین کے خلاف سازش پاکستان کی بدنصیبی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں