یونان میں کشتی اُلٹنے اور 300 سے زیادہ پاکستانیوں کی ہلاکت بلاشبہ ایک بہت بڑا المیہ ہے اس کے ذمہ داروں کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن اس کا ذمہ دار کوئی ایک شخص نہیں ہے۔ یہ پوری ایک چین ہے، یہ کام ایک انڈسٹری کی طرح پچاس پچپن سال سے ہو رہا ہے۔ بھٹو نے اپنے دور حکومت میں ہر شخص کو پاسپورٹ دیا اور کہا گیا کہ مشرق وسطیٰ اور دوسرے مغربی ممالک میں جا کر روزگار حاصل کریں اور زرمبادلہ پاکستان بھیجیں۔ باہر بھیجنے والی کئی ایجنسیاں کھل گئیں اور ان کے ساتھ ساتھ بہت سی جعلی ایجنسیاں اور محلے محلے، گلی گلی پھرنے والے بھی ایجنٹ بن گئے۔ جن ایجنسیوں کو باہر کی کمپنیوں سے ویزے ملے اور ان کو اختیار دیا گیا کہ وہ ہنر مندوں کو بھرتی کریں اور باہر بھیجنے کا انتظام کریں اس کے عوض ان کو کمپنیوں کی طرف سے پیسہ ملتا تھا لیکن ان کی لالچ ان کی ہوس اس پر قناعت کرنے کو تیار نہیں تھی لہذا یہ لوگ غریب لوگوں سے بھی پیسہ بٹورتے تھے، لوگ اپنی قیمتی اشیاءبیچ کر یا قرضہ لے کر ان کی مانگ پوری کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی وہ جعلی ایجنٹ بھی تھے جو دفتر کھولتے تھے، لوگوں کو بھرتی کرنے کے لئے ان سے خطیر رقم بٹورتے تھے اور بھاگ جاتے تھے اور یہ کام ایک انڈسٹری بن گیا اور ہمارے نظام میں رشوت، سفارش اور ہر طرح کی بدعنوانی کی طرح روح بس گیا۔ سگریٹ انڈسٹری کی طرح کہ اس کے بارے میں سگریٹ پر لکھا ہوا بھی ہے کہ مضر صحت ہے پھر بھی اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا، کھربوں ڈالر کا کاروبار ہے، اسی طرح یہ باہر بھیجنے والوں کی انڈسٹری ہمارے ملک میں بہت مضبوط ہے اس سے کئی لوگوں کی عیاشیاں وابستہ ہیں اس میں صرف عام لوگ ہی نہیں قانون نافذ کرنے والے بے شمار اہلکار بھی اس میں ملوث ہیں۔ پولیس ہو، ایف آئی اے ہو یا کوئی بھی ادارہ ان کی معاونت کے بغیر یہ کام ناممکن ہے۔ ہم نے باہر بھیجنے والوں کے دفتر کے سامنے بے شمار لوگوں کو پاسپورٹ ہاتھ میں پکڑے لائنوں میں لگے دیکھا ہے، کیا یہ مقامی پولیس کا کام نہیں ہے کہ ان کے بارے میں تحقیقات کریں ان کے لائسنس چیک کریں اور لوگوں کو لٹنے سے بچائیں لیکن ان کو ان کا حصہ مل جاتا تھا اور وہ خاموش رہتے تھے، بے شمار جعلی ایجنٹس پکڑے گئے، بے شمار ایف آئی آڑ بھی کاٹی گئیں لیکن یہ ایجنٹس کسی بڑے ہاتھ کی وجہ سے باہر آکر پھر یہی دھندہ شروع کر دیتے تھے۔ ایئرپورٹ سے جعلی فوٹو اور جعلی کاغذات پر بے شمار لوگ رشوت لے کر جہاز میں بٹھائے گئے۔ یہ تمام باتیں مجھ جیسے ایک عام آدمی کے علم میں ہیں تو کیا اعلیٰ عہدیداروں کے علم میں نہیں ہوں گی۔ کشتیوں میں بیٹھ کر یوروپ جانے کا کام گزشتہ کئی صدیوں سے غیر قانونی طور پر ہو رہا ہے۔ ان لوگوں سے بھاری رقم وصول کی جاتی ہے اور کشتیوں میں بٹھا دیا جاتا ہے، یونان، اٹلی میں ان کے ہی ایجنٹ ہوتے ہیں جو ان کی رہائش اور نوکریوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ اس وقت یونان، اٹلی، اسپین اور یوروپ کے دوسرے ممالک میں بے شمار پاکستانی ہیں جو ان کشتیوں میں ہی بیٹھ کر گئے ہیں، جعلی دستاویزات پر قانونی حیثیت حاصل کرنے والوں کے علاوہ غیر قانونی طور پر بھی لوگ رہ رہے ہیں۔ کچھ پاکستانی ان ممالک میں بھی ایجنٹ بنے ہوئے ہیں جو ان لوگوں کو قانونی حیثیت دلانے، نوکریاں دلانے، شادی کرانے اور سیاسی پناہ دلانے کا بھی کام کررہے ہیں۔ یہاں رہ جانے والے لوگ پھر اپنے گاﺅں اپنے علاقے والوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ بھی ایجنٹس سے رابطہ کریں اور یہاں آنے کی کوشش کریں لہذا لوگ بغیر سوچے سمجھے چل پڑتے ہیں۔
موجودہ حادثہ کوئی پہلا حادثہ نہیں ہے، کئی کشتیاں سمندر کی نظر ہو چکی ہیں جس میں پندرہ پندرہ بیس بیس پاکستانی بھی ہلاکت ہو گئے کسی کو پتہ نا چل سکا، لیکن اس مرتبہ ایک بڑی تعداد حادثے کا شکار ہوئی اور احتجاج ہوا تو تمام مشینری حرکت میں آگئی اور وہی لوگ جو پہلے اس کام میں سہولت کار تھے، اب مجبوراً گرفتاریاں کررہے ہیں۔ انسانی اسمگلر گرفتار ہو رہے ہیں لیکن ان کے بارے میں صر فیہ ایک یونان حادثے کے بعد پتہ چلا ہے، انسانی اسمگلنگ کا کام تو عرصہ دراز سے ہو رہا ہے، کون شخص ہے جو اس سے واقف نہیں، کون شخص نہیں جانتا کہ پولیس، ایف آئی اے اور دوسرے تمام اداروں کے لوگ اس میں شامل نہیں ہیں، کیوں اس وقت اتنی ڈرامہ بازیاں ہو رہی ہیں، کیا یہ لوگ جو پکڑے جارہے ہیں، واقعی ان کو سزا ہوگی، کیا واقعہ یہ اپنا دھندہ بند کردیں گے، کیا یہ انسانی اسمگلنگ، یہ کشتیوں میں غیر قانونی طور پر جانا بند ہو جائے گا؟ پنجاب اور آزاد کشمیر کے بے شمار لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر یوروپ گئے ہوئے ہیں، یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے اور جاری رہے گا، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مجرموں کو سزا ملے گی، انسانی اسمگلنگ ختم ہو جائے گی، یہ دھندہ بند ہو جائے گا، وہ لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ جب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بدعنوان افسر، پارلیمانوں میں بیٹھے بدعنوان لوگ، بدعنوان وزراءموجود ہیں یہ کام ہوتا رہے گا۔
224