نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 371

سیاست خوف کے نرغے میں

پاکستانی سیاست کا درجہ حرارت ایک بار ھر بڑھتا جا رہا ہے، خود حکومتی کیمپ سے وزیر اعظم عمران خان کو براہ راست ڈرانے دھماکنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے، جرم اور سیاست کے تعلقات کو ختم کروانے کی حکومتی کاوشوں اور عمران خان کے وژن کو سبوتاژ کرنے کے لئے خود اتحادی ہی اپنے بلوں سے باہر نکل آئے جب کہ پاکستانی میڈیا بغض معاویہ میں جلتی پر تیل کا کردار ادا کررہا ہے وہ مسلسل کرپشن میں ڈوبے سیاستدانوں کو ہیرو بنا کر قوم کو گمراہ کرنے کا فریضہ بہ احسن و خوبی سر انجام دے رہا ہے۔ پڑھنے والے اندازہ لگا چکے ہوں گے کہ میں کیا کہنے اور کیا لکھنے جا رہا ہوں۔
ان دنوں وزیر اعظم عمران خان ایک مشکل صورت حال کا سامنا کررہے ہیں ایک اس طرح کی صورتحال کے جس کا کوئی بھی فیصلہ ان کی حکومت کے لئے بالخصوص اور ریاست کے لئے بالعموم دل ہلا دینے والا ہو گا۔ اس ساری صورتحال کے دوران اٹھارویں ترمیم کا معاملہ بھی سر پر تلوار کی طرح سے لٹک رہا ہے اس لئے ہر کوئی یہ ہی اندازہ لگا رہا ہے کہ سارے فیصلے انصاف اور قانون سے زیادہ سیاسی نوعیت کے ہوں گے اور اس طرح کے فیصلے عمران خان سے ہونا ممکن نہیں۔ ہر طرف ایک شور مچا ہوا ہے کہ شوگر مافیا کے خلاف جو کارروائی ہو رہی ہے جس میں پاکستان کے تمام بڑی سیاسی پارٹیاں ملوث ہیں اس کا انجام کیا ہو گا؟ کیا عمران خان کپاس کی ایکسپورٹ کو یقینی بنانے کے لئے گنے کی کاشت پر مکمل پابند لگا دیں گے؟ اس لئے کہ گنے کی گاشت سے حکومت کو فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں اگر کپاس کی کاشت کی جائے تو اس سے ملک زیادہ ترقی کرے گا اور ملک میں زرمبادلہ کے زیادہ سے زیادہ آنے کا امکان بھی بڑھ جائے گا اور لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی زیادہ ملیں گے۔ 78 شوگر ملوں کی وجہ سے کاٹن کی پوری صنعت تباہ و برباد ہو گئی ہے، حکومت اگر شوگر بیرون ملک سے امپورٹ کرے تو نہ صرف حکومت کو چینی سستی ملے گی بلکہ عام لوگوں کو بھی چینی سستے داموں ملے گی اس کے علاوہ اب چوہدری برادران جو اس وقت قانون کے شکنجے میں آرہے ہیں ان کی تو چیخیں نکل رہی ہیں اور انہوں نے اپنے دو درباریوں کے ذریعے حکومت کے خلاف جنگ کا بگل بجا دیا جس کے بعد درباریوں نے اپنی توپوں کا رُخ حکومت کی جانب موڑ دیا ہے وہ روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر حکومت کو ڈرانے دھماکنے اور بلیک یل کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کا واضح مقصد نیب کو چوہدری برادران کے خلاف ہونے والی تحقیقات سے روکنا ہے۔ چوہدری برادران کا یہ ایک عجیب طریقہ ہے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا، وہ تحقیقات کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور حکومت کو گرانے کی دھمکی دے کر ان ساری انکائریوں کو ہی ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں جو ان کی منی لانڈرنگ، ناجائز اثاثوں اور پرویز الٰہی کے وزیر بلدیات پنجاب کی حیثیت سے 30 ایکسائز ٹیکسیشن افسروں کے غیر قانونی تقرریوں سے متعلق ہیں اور یہ سارے مقدمات اور ریفرنس خود مشرف دور کے ہیں جب چوہدری برادران حکومت میں شامل تھے۔ پرویز الٰہی کے ہاتھوں بھرتی ہونے والے 30 افسروں سے متعلق تو نواز شریف بھی ان کے خلاف گواہی دے چکے ہیں کہ انہیں ان بھرتیوں کا علم نہیں غرض یہ سارے تحقیقات ہیں جنہوں نے چوہدری برادران کی راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں اور وہ راتو رات خود اس حکومت کے خلاف متحرک ہو گئے جن کا وہ حصہ ہیں یہ ایک بہت بڑی بلیک میلنگ ہیں جس کا سامنا وزیر اعظم عمران خان ان دنوں کررہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح سے اس کا مقابلہ کرتے ہیں؟
اسی طرح سے شہباز شریف کو بی نیب نے دوبارہ سے طلب کر رکھا ہے ان کے اور ان کے فیملی کے اثاثوں کی تحقیقات بھی جاری ہیں، میں پہلے ہی یہ عرض کر چکا ہوں کہ ان ساری صورتحال کے ساتھ ساتھ بیک گراﺅنڈ میں اٹھارویں ترمیم میں ردوبدل کرنے پر بھی کام ہو رہا ہے اس لئے اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکا کہ پاکستان کی اس بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال اور اٹھارویں ترمیم میں رددبل کا ایک دوسرے سے تعلق نہ ہو۔ موجودہ صورتحال خاموش پیغام رسانی کا کام کررہی ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان یعنی حکومت کا کردار کرکٹ میچ ایمپائر والا ہو گیا ہے، ایک طرف پاکستان کے کرپٹ ترین سیاستدانوں کی کھربوں کی کرپشن کے کیسز ہیں تو دوسری جانب اٹھارویں ترمیم ہے، ہر کوئی یہ اندازہ لگا رہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی تحریک میں سیاسی پارٹیاں ”کچھ لو کچھ دو“ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اپنے ووٹ حکومت کے پلڑے میں ڈال دیں گے اور اس طرح سے اپنے خلاف چلنے والی اربوں کھربوں کی کرپشن کے ثابت شدہ مقدمات ختم کروادیں گے اور میرے ذاتی خیال میں بھی ایسا ہی کچھ ہونے جارہا ہے۔ میں سیاست کے استحکام کے لئے اٹھارویں ترمیم کے خاتمے یا پھر اس میں ضروری ردوبدل کا حامی ہوں۔ لیکن اس کے لئے پس پردہ کام کرنے والی قوتوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ اور یہ کام ایک اس طرح کے وزیر اعظم عمران خان کے کے نیچے ہونے جا رہا ہے۔ جن کی اپنی پارٹی کا نام ہی تحریک انصاف ہے۔ اور جو کام ہونے جارہا ہے وہ خود انصاف پر ایک بہت بڑا سوال بن رہا ہے جو عمران خان کے سیاسی تاریخی ریکارڈ پر جھومر کی طرح سے جگمگانے کا باعث بنے گا۔ اس لئے وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ خود کو اس سیاسی انجینئرنگ سے بچانے کے لئے کسی اور راستہ کا انتخاب کریں اس لئے کہ جس طرح سے یہ سارا کام ہونے جارہا ہے اس سے تو عمران خان کی سیاسی طور پر خودکشی ہونے جارہی ہے اس لئے مناسب ہو گا کہ وہ پس پردہ کام کرنے والی قوتوں کو سمجھائیں کہ وہ کوئی اور راستہ اختیار کریں ایسا نہ ہو کہ اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کی کوششوں میں ہم کوئی ناقابل تلاٰی نقصان کر بیٹھیں۔ لیکن یہاں غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ ان قوتوں سے اپنی بات منوا سکے جو ان کی حکومت کو جوڑ توڑ کے ذریعے بنوانے کے ذمہ دار ہیں۔ میرے خیال میں عمران خان کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ وقت کی ضرورت بن گیا ہے جسے کرنے کے لئے ریاست اور اس کے ادارے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں جس کا اندازہ عمران خان کے ساتھ ساتھ اس کے مخالفین کو بھی ہے جو اس وقت بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کی زد میں ہیں اور وہ خود کو بچانے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں