فیض کہہ گئے کہ
آج بازار میں پابجولاں چلو
دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک برسر چلو، خوں بد اماں چلو
رختِ دل باندھ لو، دل فگارو چلو
اور جب رختِ دل باندھنے کا ارادہ ہو ہی جائے تو سنگلاخ راستوں کی دشواریاں پھولوں سے سجی ہوئی راہداریوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ جذبہءجنوں یقینی طور پر اسی سے گردانا جاتا ہے جہاں صدق دل سے صرف نظریہ پر ایمان لا کر صرف اس کی طلب ہی باقی رہ جائے۔ یونہی نہیں بے خطر کود پڑا تھا آتش نمرود میں عشق اور تمام سیانے دیکھتے ہی رہ گئے۔ انتہائے شوق کے مرحلے آسان نہیں ہوتے، تمام سود و زیاں سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف اسی دھن میں مبتلا ہو جانا ہوتا ہے اور کچھ یہ ہی تصویریں زمانہ حال کے کینوس پر نمایاں ہونے لگی ہیں۔ لگتا ہے کہ خوف کے بت ٹوٹنے لگے ہیں اور یہ ارادہ کرلیا گیا ہے کہ منزل شوق تک پہنچنا لازم ٹھہرا۔ آزادی حاصل کرنا سہل نہیں۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے یہ ہی جذبہ تھا آزادی کے نام جس میں شہادتوں کو گلے لگا لیا گیا۔ حرمتوں اور عزتوں کی قربانیاں دی گئیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ تمام صعوبتیں غیروں کی طرف سے نازل ہوئیں۔ انگریز طویل عرصے تک برصغیر پر حکومت کرتے رہے اور عوام کی حیثیت غلاموں کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔ اس وقت بھی مگر وفاداریوں کی تجارت یونہی کی جاتی تھی۔ پاکستان کو وجود میں آئے 76 سال گزر چکے مگر وائے بدنصیبی کہ ہم اس پرانے طرز حکومت اور طرز عمل میں جکڑ کر رہ گئے۔ پاکستانی قوم نعرہ باز غلاموں کی حیثیت سے اوپر نہ اٹھ سکی۔ وہ ملک جو دو قومی نظریہ پر اس بنیاد کے ساتھ وجود میں آیا تھا کہ یہاں بسنے والوں کو آزادی ہو گی اپنا طرز حکومت عوام کی رائے پر چلانے کی یکساں حقوق انسانی اور آزادیءصحافت کی۔ وہ نظریہ تو بہت جلد ہی رخصت کردیا گیا۔ اس وقت تو ریاست پاکستان یرغمال ہو کر رہ گئی ان طاقتوں کی جو آئین پاکستان کی حدود سے تجاوز کر لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
نگراں وزیر اعظم تین براعظموں کا طویل دورہ کرنے کے بعد اپنی منہ پر واپس آچکے ان کے بیانات نہ صرف خود ان کی سوچ بلکہ انہیں اس منصب پر لانے والوں کے ارادے بھی مکمل طور پر واضح کردیئے ہیں۔ عالمی سطح پر اس وقت پاکستان کو اپنے اندرونی حالات کے سبب سبکی کا سامنا ہے۔ نگراں وزیر اعظم نے اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے اس میں اضافہ کیا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت کو سیاست کے مقابل لا کھڑا کرنا ان کی کم فہمی کا اعلان کرتا ہے۔ ریاست نام ہے اس کے اداروں اور عوام کا جس سیاسی جماعت سے اس ریاست کے 70 فیصد عوام وابسگتی کا اعلان کررہے ہوں وہ ایک قومی جماعت کی حیثیت رکھتی ہے اس کو انتخابات سے معطل کر دینا گویا ریاست پاکستان کے کروڑوں عوام کی آزادیءاظہار رائے پر قدغن لگا دینا ہے۔ سیکرٹ آفیشل ایکٹ کے بہانے جو کارروائیاں جاری ہیں ان میں نہ صرف قانونی سقم ہیں بلکہ سیاسی عنصر نمایاں ہے۔ نگراں حکومت محض انتخابات کو یقینی بنانے کے لے قائم کی جاتی۔ وفاقی نگران بشمول صوبائی نگران حکومتیں اپنی آئینی حدود کو مسترد چکی ہیں اور ان تمام کارروائیوں کا تسلسل جاری ہے جو 13 جماعتی اتحادی حکومت کے 16 ماہ کے عرصہ حکومت میں شروع کی گئیں۔ 9 مئی کے واقعہ کی آڑ میں جس طرح تحریک انصاف کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور جس طرح عدلیہ اور انتظامیہ دونوں بے بسی کا اظہار کرتی رہی اور کررہی ہے اس نے یہ تو واضح کیا ہے کہ حکومت کہاں سے چل رہی اور فیصلے کہاں ہو رہے ہیں۔ آئین تمام اداروں کے دائرہ کار کی تفصیل بیان کرتا ہے مگر جب سرحدوں کی حفاظت سے ہٹ کر زراعت، صنعتوں اور جائیدادوں کی تجارت سے منسلک ہو جائیں تو ملک میں ہر طرف دہشت گردی کو فروغ پانے کے راستے کھلنے لگتے ہیں۔ دشمن ہر طرف سے گھیر لینے کے راستے ڈھونڈ لیتا ہے۔
عمران ریاض خان 4 مہینے کے بعد جس حالت میں رہا ہو کر آئے ہیں وہ پاکستان کی اخلاقی اور آئینی حیثیت پر ایک بھرپور طمانچہ کے سوا اورکچھ نہیں۔ صحافت کے وہ علمبردار جو ہر نکتہ پر اعتراض اٹھاتے ہیں ان کی حالت سے نظریں چرا رہے ہیں۔ درپردہ ہر صحافی اسے اپنی حالت سے تعبیر کرتے ہوئے خاموش ہے۔ فسطائیت اور بربریت کی یہ مثال اس سے قبل مشاہدہ میں نہیں آتی تحریک انصاف کے ہزاروں کارکن جس طرح تشدد کا شکار کئے جارہے ہیں وہ ریاست پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرے کے دروازے کھول رہا ہے۔ عمران خان نے خود سے متعلق تمام اندازے سے غلط ثابت کردیئے ہیں وہ کسی صورت کسی مفاہمت پر اپنی جماعت اور ملک کے خلاف پر آمادہ نہیں۔ تحریک انصاف کے ہزاروں کارکن مشکلات کے باوجود جماعت سے علیحدگی پر رضامند نہیں۔ مخالفوں کو اب بھی اگر زمینی حقائق سے نظریں چار کرنے میں دشواری کا سامنا ہے تو یہ ان کی وفادارئی ریاست جس کا وہ حلف لیتے ہیں پر بہت بڑا سوال ہے۔ حادثے ایک دم وجود میں نہیں آجاتے، وقت اور حالات ان کی پرورش کرتے ہیں۔ پاکستان ویسے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، کسی بڑے واقعے کا متحمل نہیں ہو سکتا مگر جو لاوا انتظامیہ اور اداروں کے طرز عمل سے پک رہا ہے وہ آتش فشاں بن سکتا ہے۔ دنیا کی تاریخ ایسے واقعات کی شاہد ہے۔ مذاکرات اور مصالحت کے دروازے کھولنے کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی تناظر میں پاکستان اس وقت خطرناک ترین ملک بن چکا ہے۔ شفاف الیکشن وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی شرکت کے ساتھ۔
