عمران خان توجہ فرمائیے! 410

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی بہتات

جہاں پاکستان اس وقت بے شمار اندرونی و بیرونی مسائل کا شکار ہے وہاں پاکستان میں آئے دن معرض وجود میں آنے والی سیاسی پارٹیوں کے اغراض و مقاصد کو بھی دیکھنا ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ان گنت محاذوں پر پنجہ آزمائی کررہی ہیں جن میں معیشت کی بحالی، کرپشن کے خلاف جہاد، بے روزگاری، تعلیم، علاج معالجہ، سیاسی اور نوکری شاہی مافیا سے جنگ وغیرہ وغیرہ۔ وہاں بیرونی محاذ پر پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا، عرب ممالک کے ساتھ سرد خانے میں پڑے ہوئے معاملات کو سلجھانا، عالمی طاقتوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنا، کشمیر اور ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک سے نمٹنا، مہاجرین کا مسئلہ، عالمی فورم پر اجاگر کرنا۔ ان سب محاذوں پر عمران خان ذاتی طور پر سخت محنت کررہے ہیں۔ ابھی تک الیکشن کمشنر اور ممبرانکی تعیناتی پر کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہ ہو سکی ہے جو کہ بہت پہلے ہو جانی چاہئے تھی جو کہ حکومت کی ایک آئینی ذمہ داری ہے۔
آج ہم پاکستان جیسے نیم خواندہ ملک میں معرض وجود میں آنے والی سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیں گے۔ اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ایک سو پچیس سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں۔ جن میں سے چھ بڑی پارٹیوں کے علاوہ عام عوام کسی کو نہیں جانتے اور نہ ہی عام انتخابات میں ان کو پذیرائی ملتی ہے۔ ان میں
(۱) پاکستان تحریک انصاف، (۲) پاکستان مسلم لیگ (ن)، (۳) پاکستان پیپلزپارٹی، (۴) جمعیت علماءاسلام (ف)، (۵) جماعت اسلامی، (۶) مہاجر قومی موومنٹ
ہمارے پڑوس ہندوستان میں جو کہ پاکستان سے پانچ گنا بڑا ملک ہے وہاں بھی بڑی سیاسی جماعتوں کی تعداد دو ہے جن میں بی جے پی اور کانگریس۔ جن کے درمیان میں مقابلہ ہوتا ہے اس کے علاوہ کل سیاسی جماعتوں کی تعداد (2293) بائیس سو ترانوے ہے جن میں علاقائی پارٹیاں بھی شامل ہیں۔ دوسرے نمبر پر بنگلہ دیش میں بڑی سیاسی جماعتیں دو ہیں جن میں عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی، اس کے علاوہ اکتالیس کے قریب چھوٹی بڑی رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ پارٹیاں ہیں یعنی ہمارے ساﺅتھ ایشیا کے ممالک میں سیاسی پارٹیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم برطانیہ کا جائزہ لیں تو وہاں پر بڑی سیاسی پارٹیاں تین ہیں۔ جن میں کنزرویٹو پارٹی اینڈ یونیفسٹ پارٹی، لیبر پارٹی اور اسکاٹس نیشنل پارٹی۔ اس کے علاوہ دوسری چھوٹی پارٹیوں کی تعداد تقریباً چودہ ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی اگر بات کی جائے تو وہاں پر بھی دو بڑی سیاسی پارٹیاں نظر آتی ہیں جن میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی ہے اس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی علاقائی پارٹیاں ہیں جن کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ان کی تعداد ساٹھ کے قریب ہے۔
کینیڈا میں چار بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں جن میں لبرل پارٹی، کنزرویٹو پارٹی، نیو ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی ہیں اس کے علاوہ چھوٹی علاقائی پارٹیوں کی تعداد تقریباً پندرہ ہے۔
اس مختصر جائزے کے بعد یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ ساﺅتھ ایشین ممالک میں بڑی پارٹیوں کی تعداد ترقی یافتہ ممالک کے قریب ہے جب کہ چھوٹی اور علاقائی پارٹیوں کی تعداد ہمارے ہاں بہت زیادہ ہے اور اس کے علاوہ آزاد امیدواران کی ہوشربا تعداد بھی میدان میں اترتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی رجسٹریشن کے طریقہ کار کو تبدیل کیا جائے اور جن پارٹیوں کے امیدواران کی ضمانتیں بھی ضبط ہو جاتی ہیں ان کو آئینی طریقہ کار میں تبدیلی کرکے بند کیا جائے۔ بالخصوص چھوٹی علاقائی پارٹیاں جو چند سیٹیں جیت کر حکومتوں کا حصہ بننے کے لئے کرپشن کے دروازے کھولتی ہیں۔ ان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ آزاد امیدواران کی حوصلہ شکنی کی جائے وہ بھی حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی سیاسی پارٹیاں جو کہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں ان کے متعلق بھی واضح پالیسی مرتب کی جائے جو کہ ایک مشکل کام ہے یہ پریشر گرپس ہیں، مذہب کے نام پر لوگوں کو اکساتے ہیں اور نقص امن پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اگر پاکستان کو ترقی کرنی ہے اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنا ہے تو ہمیں مذہب کو سیاست سے جدا کرنا ہو گا جو کہ یورپ نے کئی سو سال پہلے کیا تھا انہوں نے پوپ کو کلیسا تک محدود کردیا تھا اور سیاست کو الگ کردیا تھا۔ آج کے جدید دور میں ہمارے پاس مسلم ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے لبرل پالیسی اپنا کر بے شمار ترقی کی ہے جن میں ترکی، ملائیشیا اور عرب امارات اس کی مثالیں ہیں۔ وہاں مذہبی اور سماجی آزادی یکساں میسر ہے۔ جب تک ہم جدید ٹیکنالوجی کو اختیار نہیں کریں گے ترقی نہیں کر سکیں گے۔ آج پاکستان پورے ساﺅتھ ایشیا میں سب سے پسماندہ ملک بن چکا ہے اس کی وجوہات پچھلے چالیس سال میں غیر سنجیدہ اور کرپٹ سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں پاکستان کی باگ ڈور رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ 1973ءکے آئین میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کی جائیں۔ ہمارے ہاں ابھی تک انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین چل رہے ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں