پختونوں میں غم و غصہ اُس دن سے شدید بڑھ گیا جب کراچی میں نوجوان نقیب اللہ کا قتل ہوا۔ ملیر کا پولیس کی وردی میں چھپا غنڈا راﺅ انوار اس قتل میں ملوث نکلا، کسی نے اس قتل کو کسی عشق کی داستان بنانے کی کوشش کی تو کسی نے اسے ملکیت کا جھگڑا قرار دیا مگر یہ حقیقت ہے کہ نقیب اللہ کو مارنے والے کسی کے اشارے پر کام کررہے تھے۔ وہ اس بات سے بالکل ناواقف تھے کہ یہ معاملہ اس قدر بڑھ سکتا ہے۔ ان کے خیال میں جس طرح وہ کراچی کے نوجوانوں کو قتل کرنے اور اغواءکرنے کے کام پر مامور تھے اور انہی کسی رکاوٹ کے بغیر ایسا کرنے کا کھلا لائسنس دیا گیا تھا کہ مہاجرین کے بچوں کو جب اور جہاں سے چاہو اُٹھالو جو چاہو سلوک کرو اور پھر دہشت گرد کا ٹائٹل دے کر قتل کردو مگر یہاں معاملہ پختون کا نکلا اور ہزاروں پختونوں نے سپرہائی وے بلاک کردی اور کئی روز تک ڈیرا ڈالے رکھا۔ مگر پاکستان کے اندھے قانون کو کچھ نظر نہیں آتا۔ پٹھان خون گرم بھی ہوتا ہے اور غیرت مند بھی۔ یہ طبقہ پاکستان کا Son of Soil بھی ہے اس لئے نقیب اللہ قتل پولیس کے گلے پڑ گیا اور سندھ پولیس کا بہادر بچہ راﺅ انوار قدرت کی پکڑ میں آگیا مگر اس کے ہاتھ اس قدر لمبے تھے کہ ایسی عزت اور پروٹوکول تو عدالتوں میں پیشی کے وقت اس کے پیر و مرشد آصف علی زرداری کو بھی نہیں ملی تھی جیسی اسے حاصل ہوئی۔ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار جو کہ انصاف کا اور قانون کا بول بالا نہیں بلکہ منہ کالا کرنے پر مامور تھے، اس قاتل بھیڑئیے اور نطفہ حرام کو عزت دینے پر مجبور ہوگئے۔ اسے عدالت میں لانے کی خانہ پری کی گئی اور پھر اسے ضمانت پر رہا کرکے اپنی آغوش میں یوں سمیٹ لیا گیا کہ کہیں کوئی من چلا اس کا کام ہی تمام نہ کردے کیونکہ اس درندے نے ہزاروں گھروں کے لخت جگر اٹھائے اور ماورائے عدالت قتل کئے۔ وہ کہاں چھپا، جاننے والے جانتے ہیں اور اسی چیز نے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نفرت میں اضافہ کیا اور پشتون تحفظ موومنٹ معرض وجود میں آگئی۔ یہ پختون نوجوانوں کی تنظیم ہے جس میں نوجوان پختون کافی تعداد میں ہیں اور اپنے قیام کے کچھ ہی عرصہ میں وہ میڈیا میں اپنا مقام بنا گئی۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر کام کو بندوق کے ذریعہ کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگوں میں نفرت بڑھتی ہے اور لوگوں میں احساس پیدا ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور جب اندر پکتا ہوا لاوا باہر نہیں نکلنے دیا جاتا تو پھر یہ دوسرے ممالک کے آلہ کار بن جاتے ہیں اور یوں ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ حالیہ فوج اور پی ٹی ایم کے مابین ہونے والے تصادم کو مختلف تناظر میں دیکھا جارہا ہے جو لوگ فوج کے مخالف ہیں وہ منظور پشتین کو سپورٹ کرتے نظر آرہے ہیں اور جو فوج کے حامی ہیں وہ فوج کو۔ یوں ملک کے عوام کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ یقیناً یہ نہایت خوفناک عمل ہے کہ ایک ملک کے رہنے والے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجائیں۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے اور اقتدار اعلیٰ میں بیٹھے لوگوں کو شعور دے۔ آمین
