دوست ۔ متاع خاص 658

کبھی عیدیں ہوا کرتی تھیں

یاد ماضی بھی عجیب چیز ہے، چاند کی طرح گھٹتی، بڑھتی رہتی ہے لیکن فنا نہیں ہوتی، اگر کوئی سِرا اُن کے ساتھ جُڑ جائے تو پھر تمام دیرینہ واقعات، حالات کی ایک فلم ذہن کے پردوں پر چل پڑتی ہے اور یہ کھٹی میٹھی یادیں ماضی کے جھروکوں سے جھانکنے لگتی ہیں۔
اپنی یادوں سے جُڑی ایک یاد اس چوڑی بیچنے والی کی آواز کی ہے جسے میرے ابا مرحوم نجانے کس گلی سے ڈھونڈ کر گھر کے اندر لے آتے اور پھر میں، میری بہن اور والدہ مرحومہ ان چوڑیوں کے رنگوں کی طرح کھل جاتے۔ ابا ایک عجیب خوشی محسوس کرتے اور اصرار کرتے کہ ایک ہی لمحہ میں تمام چوڑیاں ہاتھوں میں پہن لی جائیں، محبت کا چاہت کا انوکھا انداز تھا یہ بھی۔ وقت نے کروٹ لی، چوڑی بازار آج بھی سجتے ہیں، جدید دور کے مطابق ہر چیز تبدیلی کا چولہ پہن کر سر بازار گھومتی دکھائی دیتی ہے۔ رنگوں، خوشبوﺅں کی دنیا آج بھی مسحورکن ہے۔ عید کا تصور آج بھی خوبصورت احساس کی آماجگاہ ہے لیکن نہ وہ لوگ رہے نہ وہ بازار گلیاں اور نہ عمر کا وہ دور جہاں رقم آہستہ آہستہ اکھٹی کرکے عید کارڈ اور چھوٹے چھوٹے تحائف خریدے جاتے تاکہ محبت کے اظہار میں کمی نہ رہ جائے۔ آج خوشیوں کے تصور کو انٹرنیٹ کا اژدھا پوری طرح نگل چکا ہے۔ Whatsapp کی دنیا اتنی رنگین دکھائی دیتی ہے کہ عید کارڈ پر ہاتھوں سے اشعار لکھ کر بھیجنا تو دور کی بات عید کارڈ خریدنا ہی ممنوع فعل بن چکا ہے۔ وہ کارڈ جو سالہا سال دوستوں کے درمیان محبت کی مضبوط زنجیر کی ضمانت تھے، آج دو سیکنڈ کے میسج کے محتاج ہو کر پل بھر میں ڈیلیٹ ہو جاتے ہیں۔ محبتوں کا معیار بھی اسی طرح عارضی لمحہ بھر پر محیط ہو کر رہ گیا ہے۔ تعلق کی ڈور کمزور پڑتی جارہی ہے، نئی نسل اس ایک لمحے کی خوشی کو محسوس کرنے میں بدقسمت ہے، جو عید کے موقع پر نئے لباس زیب تن کرکے دوستوں سے گلے ملنے میں ہوتی تھی۔ ہم آج اپنے بچوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہماری عیدیں واقعی عیدیں تھیں، منافقت، غیریت، خودغرضی سے پاک، پورا سال ان کا انتظار رہتا تھا کیونکہ یہ سانجھی خوشیاق تھیں، موجودہ دور میں خوشیوں کے پیمانے بدل چکے ہیں۔ خریدار موجود ہیں، فروخت کرنے والے بھی سرراہ مل جاتے ہیں، محبتوں کے سودے عام ہو گئے ہیں، ملاوٹیں ان کے اندر رچ بس گئی ہیں۔ نفسا نفسی اور ذاتی اغراض کے گھوڑے سارا دن سرپٹ دوڑاتے پھرتے ہیں، پیچھے رہ جانے والی دھول میں جو چہرے گم ہو جائیں انہیں تلاش کرنے کی جسارت نہیں کرتے۔ لمحوں کی سودے بازیاں عروج پر ہیں۔ ایثار، خود فراموشی کا درخت کھوکھلا ہو گیا ہے جس کے پاس نہ سایہ ہے اور نہ پھل۔
مشینی دور میں انسان صبح سے شام ضرب، تقسیم کرنے میں اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ اس کی اپنی ذات آہستہ آہستہ نفی ہوتی جارہی ہے۔ سوچ کے اُلجھے دھاگے کھولنے کے لئے نہ فرصت ہے نہ طاقت۔
دیار غیر میں عید کی خوشی کچھ زیادہ اداس کردیتی ہے کیونکہ عید تو اپنوں سے ہوا کرتی ہے۔ پردیس میں عید کا تصور ٹیولپ کے ان پھولوں کی طرح محسوس ہوتا ہے جو خوش رنگ تو بہت ہیں لیکن خوشبو سے عاری۔
عید مقررہ وقت پر ہو جاتی ہے، تھوڑا بہت ملنا ملانا بھی ممکن ہو جاتا ہے، لیکن اندر کی کسک پوری خوشی کو ادھورا پن دے دیتی ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کی کمی جو ماہ رمضان میں دنیا سے رُخصت ہو کر جنت کے حق دار بن کر دلوں دماغوں میں زندہ رہ جاتے ہیں۔ اپنے ساتھ عید کی رونقیں قبروں میں لے جاتے ہیں۔ دراصل ان کا وجود ہی عید سعید سے منسلک ہوتا ہے، تہوار ان کے محتاج نہیں ہوتے، وہ ہر جگہ محفل آباد کرتے ہیں اور عید کا سماں پیدا کردیتے ہیں۔ آج ہماری عیدیں سونی سنسان گلیوں کی مانند ہو گئی ہیں۔ جہاں چوڑیاں، جیولری، میک اپ، لباس، جوتے، ہر شے ورائثی اور کوالٹی میں پیش پیش نظر آتی ہیں لیکن ہر لمحہ خوف دہشت گردی کا جن بوتل سے باہر آنے کے لئے بے تاب ہے۔ بازاروں کی رونقیں کم ہو گئی ہیں۔ انجانے خوف اور وہم سے انسانی ذہن امید اور نا امید کے چشمے کبھی پہنتا اور کبھی اتارتا ہے۔ موجودہ دور کے بچے کچھ تو انٹرنیٹ کی بدولت عید کی اصل روح، مکمل اقدار سے بے خبر تھے، اوپر سے دھماکے اور خون خرابے کے ڈر نے ان سے عید کی مسرتوں کو پوری طرح ذہنوں، دلوں کی جاگیر بنانے کی خوشی بھی چھین لی ہے۔ اقدار کا چاند تو شاید دھندلا نہیں سکتا، چہروں کی خوشیاں آج بھی متلاشی ہیں، عید کارڈ کے نازک بے جان کاغذ پر اپنی محبت کی مہریں ثبت کرنے کے لئے۔ پھر مسکراہٹوں کے تبادلے کے لئے عید کے دن کا انتظار کیوں۔ ہر روز ہر دن ہر لمحہ کیا عید کی نوید لے کر ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں بکھیر سکتا، دوسروں کو گلے لگانے ان کے دُکھ سمیٹنے ان کے غموں میں ہمراز بننے۔ ان کی تکلیف کو اپنا سمجھ کر حوصلہ اور ہمت کی چٹان بننے کے لئے سال بھر کا انتظار کیوں کیا جائے۔ عید کے لفظ کو احساس کو جذبے کو زباں و مکاں کی قیود و حدود سے آزاد کرکے وسیع تر معانی کیوں نہیں دیئے جاسکتے۔ فرقہ واریت، خودغرضی، نسل پرستی کے جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرکے دور سمندر میں پھینک دینے اور امن و آشتی کے چراغ جلانے کے لئے سال بھر کا انتظار کیوں۔ عید تو خوشی کا لباس پہن کر آتی ہے اسے محبتوں کے ساتھ خوش آمدید کہنا ہماری روایت ہے۔ ہمیں پردیس میں نفرتوں کے ماتمی لباس اتار پھینکنے کے لئے ایسی عیدیں ہر روز منانا چاہئے جہاں ہمارے افکار میں ہمارے اعمال ہیں۔ نظریات میں چوڑیوں کے رنگ لباسوں کی خوشبو کا احساس ترو تازہ رہیں، ہماری آنے والی نسلیں ہماری محبت، قربانی اور دوسروں کی بھلائی کے لئے بنائے گئے چشموں کے پانی سے ہمیشہ سیراب رہیں، وہ یہ نہ سوچیں کہ ہماری عیدیں کہیں کھو گئی ہیں، دوسروں کو محبت بانٹنا، آسانیاں تقسیم کرنا ہی تو اصل عید ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں