۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 116

گدھ کم ہو رہے ہیں؟

خدا خدا کرکے یہ دن آیا کہ جنت نظیر ارض پاک میں سارے انسانی مسائل حل ہو چکے ہیں اب افسران ایک دوسرے پر صدقے واری ہو رہے ہیں، محبت کا زم زم بہہ رہا ہے، سب شیر و شکر ہو کر بھائی بھائی بن گئے ہیں اور ایک دوسرے کی محبت میں سرشار ہو کر ”من توشدی تومن شدم“ کی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔ ساری نفرتیس کدورتیں ختم ہو چکی ہیں، وہ ماضی کا دور ختم ہوا، جب بندے بندے کا ویری تھا اب تو ایک دوسرے کے لئے جان دینے پر آمادہ ہیں بلکہ بس نہیں چلتا کہ مرنے والے کی جگہ میں مر جاﺅں اور قبر میں اگر کوئی جارہا ہے تو دوسرا اس کے پہلو میں دفن ہونے کو مرا جارہا ہے۔
وہ زمانہ لد گیا جب لوگ ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کے لئے استرے جیبوں میں لئے پھرتے تھے اور دوسرے کی جان لینے کے بہانے تلاش کرتے تھے، کبھی مذہب کے نام پر، کبھی فرقے کے بہانے، کہیں کسی کی زمین ہڑپنے کے لئے اس پر توہین مذہب کا الزام لگا کر گھروں کو جلا کر اور ان میں رہنے والوں کو ان کے ہی شعلوں میں بھسم کرکے رقص کرنے کا موقع تلاش کرتے، کبھی معصوم بچوں کو بربریت کا نشانہ بنا کر انہیں ذبحہ کرنے والے کبھی خواتین کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والے یہ سب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ آج انسانی مسائل تو حل ہو چکے ہیں، سب ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں، ہاں پانی پر یاد آیا کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ لوگ پہلے تو لوگ صحراﺅں میں پیاسے مر جاتے تھے مگر وہ بھی دور تھا کہ سرکاری سرپرستی میں پانی مافیا لوگوں کو پانی سونے کے مول بیچتی تھی، سارے پانی پر قبضہ کرکے اور انسان کو اس کے بنیادی حق سے محروم کر کے ان کے ہاتھ پانی بیچا جاتا تھا۔ امیر امراءتو منرل واٹر سے غسل کرتے تھے مگر غریب غرباءکو پینے کے لئے بھی پانی خریدنا پڑتا تھا۔ اسی دور میں انسان روٹی کو محتاج تھا کہ جب لوگوں کے کتوں کے لئے امپورٹڈ ڈوگ فوڈ میسر تھی گویا وہ دور انسانیت کے لئے حشر کا دور تھا جہاں نفسی نفسی کا مظاہرہ عام تھا اور آدمی آدمی کو کھانے کے لئے تیار تھا۔
مگر کیا ایک جادو کی چھڑی سے سارے معاملات چٹکی بجاتے ختم ہو گئے یا شاید آدمی ختم ہو گئے ان کے مسائل ختم ہو گئے اب انسان کا تذکرہ ماضی کے پردے کے پیچھے بھی نہیں ہوتا اور اب جب انسانوں کو کچھ کرنے کے لئے نہ رہا تھا تو انہوں نے ایک دوسرا مشغلہ اخیتار کر لیا اور تحقیق کے نئے نئے میدان سامنے آگئے جن پر دھند میں چھپ جانے والی نسلوں کی نظریں نہیں ٹھہریں بہرحال مصروفیت کے لئے کچھ تو چاہئے، یہ انسانی محض جستجو، جدوجہد اور حقیقت بعد معلوم ہوا کہ ملک میں ”گدھوں“ (گدھے نہیں، ان کا تذکرہ بعد میں آئے گا کیونکہ گدھوں کا نمبر بعد میں ہی آتا ہے) کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہو گئی ہے یہ جانور جو غالباً انسانوں کے ساتھ ہی پیدا ہوا تھا۔ برصغر میں بہت پاپولر تھا، یہی وجہ ہے کہ کسی گدھ پرست نے ان کی کم ہوتی ہوئی تعداد پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس کی وجوہات معلوم کرنے کا عزم کیا ہے۔ یہ گدھ جن کی عمریں صدیوں پر محیط ہوتی ہیں، ایک بھاری بھرکم پرندہ ہے اور یہ بظاہر ایک سست الوجود رکھتا ہے مگر جہاں اسے اپنے کھانے کی بو محسوس ہوتی ہے اس کی پھرتی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے، یہ مردار خور جانور ہے جو کہ انسان، جانور، چرند یا پرند کوئی بھی ہو اس کی زندگی ان سے بندھی ہوتی ہے، ہاں مگر مردوں سے اسے بڑی رغبت ہوتی ہے، یہ میلوں دور سے مردار شے کی بو سونگ لیتا ہے اور وہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس جانور کو اپنے رزق کی تلاش میں انسانوں کی مدد بھی حاصل ہوتی ہے اور جب فوجیں جنگوں کے لئے نکلتی تھیں، گدھ بھی ان کے ساتھ ساتھ ان پر سایہ فگن ہوتے تھے اور انہیں امید ہوتی تھی کہ یہ ایک دوسرے انسانوں کو ماریں تو انہیں کھانا میسر آئے گا۔
یہ بلا کسی مذہب و ملت، رنگ و نسل کے اپنی غذا مردوں میں تلاش کرتے تھے۔ مگر محقق صاحب نے اپنی تحقیق محض اڑنے والے گدھوں کی طرف محدود رکھی وہ اگر غور کرتے تو انہیں پتہ چلتا کہ اب گدھ صرف مردہ خور پرندے ہی نہیںہیں بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں بھیس بدل بدل کر شامل ہوگئے ہیں جسے کہ کہتے ہیں کہ جب سانپ سو سال سے زیادہ عمر کا ہو جاتا ہے تو پھر وہ انسانوں کی جون میں آجاتا ہے اور آج بھی یہ پہلے آستینوں میں پلتے تھے اب یہ ڈسنے والے انسانوں کی روپ میں زندہ ہیں تو یہ گدھ اب سیاست میں شامل ہیں۔ یہ برے بڑے سرمایہ دار ہو گئے ہیں یہ اب زندگی کے شعبے میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کی اکثریت ہو گئی ہے اب یہ کچھ ترقی یافتہ ہو گئے ہیں یہ اب مردار نہیں کھاتے بلکہ یہ زندوں کو بھی کھا رہے ہیں اب انہوں نے اپنی خوراک کے لئے نئی نئی تاویلات کرلی ہیں کہیں یہ انسانوں کی ضروریات کہہ رہے ہیں کہیں یہ زمینیں نگلے جارہے ہیں کہیں یہ ملک و قوم کے راہنما بن کر عوام کو کچا نگل رہے ہیں اب ان کا دائرہ کار وسیع ہو گیا ہے اب درختوں اور عمارات پر اونگتے نظر نہیں آتے بلکہ یہ ایوان اقتدار میں، اعلیٰ عہدوں پر عدلیہ کے اونچے سنگھاسس، مذہبی جبہ و قبا میں تعلیمی اداروں کی راہ داریوں میں اپنے نشیمن رکھتے ہیں اگر گدھ شناس محقق اپنی تحقیقی نظر کو وسیع کریں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ یہ جو درختوں پر اونگتے ہوئے بھاری بھر کم پرندے ہیں وہ گدھ کہہ رہے تھے تو کم نظر آتے ہیں مگر معاشرے میں ان کے بھائی بند اب انسانوں کی تعداد بھی بڑھ چکے ہیں۔ صرف انہوں نے ارتقائی عمل کے ذریعہ خود کو کیموفلاج کرکے طریقہ واردات تبدیل کرلیا ہے۔ اب لوگوں کے مرنے کا انتظار نہیں کرتے بلکہ ان کو زندہ ہی نگل رہے ہیں اور ان کا خون چوس چوس کر اپنی تعداد میں دن دونی رات چوگنی اضافہ کررہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں