بھارتی پائلٹ کی رہائی کے بعد سے پاکستان جس تیزی کے ساتھ دنیا میں ایک پرامن ملک کی حیثیت سے ابھر رہا ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے لیکن ایک پرامن پاکستان جس طرح سے پاکستان کے دشمنوں کو کھٹک رہا ہے اسی طرح سے ان کے لئے نرم گوشے رکھنے والے بعض پاکستانی سیاستدانوں کو بھی ایک نظر نہیں بھا رہا ہے اور وہ پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے بدنام کرنے کے حربے کو ایک ’بارگینگ ٹول“ کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ نیوزی لینڈ کی مساجد میں کس طرح کے ہولناک واقعات پیش آئے؟ پاکستانی اپوزیشن کو اس سے کوئی سروکار نہیں ان کی پوری سیاست ہی لوٹی جانے والے مال کو محفوظ بنانے کے گرد گھوم رہی ہے ان کی نظر میں لوٹے ہوئے مال کے سامنے نہ تو ریاست کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اس میں رہنے والے 22 کروڑ عوام کی۔
عام پاکستانیوں کا اس بارے میں یہ کہنا ہے کہ اس طرح کے سیاستدانوں کو تو کھمبے پر ٹانگ دینا چاہئے جو اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے پورے ملک سے کھلواڑ کررہے ہیں، سارے پاکستان کو معلوم ہے کہ مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے اپنے ادوار میں سوائے قومی خزانے کو اپنی اپنی تجوریوں میں بھرنے کے اور کچھ نہیں کیا۔ اب جب ان کے خلاف مقدمات درج ہو گئے ہیں اور ان کا جرم بھی کسی حد تک ثابت ہوگیا اور ان کے لوٹے ہوئے مال کا تجوریوں سے قومی خزانے میں جانے کا وقت بھی آگیا اتو ان سب نے مل کر شور مچانا شروع کردیا اور قوم کا کاندھا خود کو بے گناہ اور ریاست کو گناہ گار ظاہر کرنے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ میرے خیال میں قوم بھوکی ننگی ضرور رہے مگر اتنی بھی بے وقوف نہیں کہ وہ ان قومی لٹیرے سیاستدانوں کی باتوں میں آجائے، قوم تو ان کا انجام دیکھنے کو بے تاب اور بے چین دکھائی دے رہی ہے کہ اب ان لٹیروں کے خلاف بھی کارروائی ہوگی یا نہیں۔ جو ان کے پیدا ہونے والے بچوں کے مقروض کیے جانے کا باعث بنے ہیں جیسے جیسے ان کے خلاف قانون کا گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔ ویسے ویسے ان کی چیخیں بلند ہوتی جارہی ہیں پہلے مسلم لیگ ن والے دشمن کی زبان بولتے تھے اب پیپلزپارٹی نے بھی جان اور کھال بچانے کے لئے دشمن کی زبان بولنا شروع کردی ہے۔ باضابطہ منصوبہ بندی سے لکھے گئے اسکرپٹ کے مطابق پہلے تین وزراءکا دہشت گرد تنظیم سے تعلق ہونے کا الزام لگایا اس کے بعد ان کو کابینہ سے نکالنے کا مطالبہ کیا اسی طرح سے بلاول بھٹو کا قومی امسبلی میں انگریزی میں خطاب بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے وہ دراصل پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے بدنام کرنے کے اپنے اس حربے کو بلیک میلنگ کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور اس طرح سے کرکے وہ حکمرانوں اور مقتدار قوتوں کو آصف زرداری کے لئے این آر او پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں یہ کرکے وہ ایک طرح سے اپنے جرم اور اپنی شکست کا اعتراف کررہے ہیں انہیں معلوم ہے کہ وہ خود کو عدالتوں میں بے گناہ ثابت نہیں کر پائیں گے اس لئے وہ کبھی ان صاف ستھرے مقدموں کو سیاسی مقدمات کا نام دے کر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں اور کبھی جیل بھرنے کی تحریک چلانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اس طرح سے کرکے وہ یہ تاثر دینے کی کوشس کررہے ہیں کہ جس طرح سے زرداری نے لوٹ مار کی ہے اسی طرح سے ساری قوم ہی لوٹ مار میں ملوث ہے یہ تو شکر ہے کہ سوائے ان کے مزارعوں اور وظیفہ خوروں کے اور کوئی ان کی باتوں میں نہیں آرہا اور خود ان کو بھی اس کا اچھی طرح سے ادراک ہو چکا ہے کہ قوم ان سے نالاں ہو چکی ہے اور وہ ان کے سارے ہی روپ قوم دیکھ چکی ہے اور اب میڈیا کے ذریعے انہیں مزید بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا اسی لئے وہ اس حکومت کو غیر ملکی قوتوں کے ذریعے دباﺅ میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپوزیشن کی ان گیدڑ بھبھکیوں کو بالکل بھی خاطر میں نہ لائیں جس مشن پر وہ گامزن ہیں وہ اپنے اس مشن کو پوری ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائے دنیا بھر میں مسلمانوں پر آئے اس مشکل گھڑی میں سب کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ امت مسلمہ خاص طور سے ترکی، ملیشیا، انڈونیشیا، سعودی عرب اور عرب امارات کو معلوم ہوا ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان میں اس طرح کی حکومت آئی ہے کہ جس کے قول و فعل پر اعتبار کیا جا سکتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کے ایک پکار پر عرب ملکوں کے خزانوں اور جیلوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ان ملکوں کے سربراہان خود بھی پاکستان آنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور پاکستانی حکمرانوں کو اپنے ہاں بلانے پر بھی۔۔۔ یہ وہ تبدیلی ہے جس نے عوام سے زیادہ خود اپوزیشن کی راتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اس عمران خان اور اس کی طون پرست سیاست سے کس طرح سے چھٹکارہ پائیں؟
وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ ملک میں قانون کی حکمرانی کی بنیاد پارلیمنٹ سے رکھنے کے اس عمل کو اور بھی تیز کردیں اس لئے کہ گھر صاف ہو گا تو پورا ملک ہی صاف ہو جائے گا۔ قانون بنانے والے خود قانون کا احترام کریں گے تو باقی قوم بھی قانون کے احترام کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ قانون کی حکمرانی سے ہی جمہوریت کے سورج کا طلوع ہونا ممکن ہو سکے گا۔
518