دوسروں کا بینڈ باجہ بجانے والا پاکستانی میڈیا اپنی کرتوتوں کی وجہ سے ان دنوں تنقید کے زد میں ہے ان کی کوئی ایک کرتوت ہو تو بیان کروں ان کے خلاف تو زرد صحافت کی پوری ایک چارج شیٹ ہے یہ تو خدا کا شکر ہے کہ سوشل میڈیا متحرک ہے جو ملک بھر کے لوگوں کو پل پل کی اطلاعات برق رفتاری کے ساتھ دے رہا ہے۔ اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو پاکستانی میڈیا ملکی عوام کو دن میں تارے دکھانے میں کامیاب ہو چکا ہوتا۔ عمران خان کی حکومت کے آتے ہی پاکستانی میڈیا کی بداعمالیاں کھل کر سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ بڑی بڑی خبروں کو پی جانا اور ملکی عوام کو حکومتوں کے خلاف بے بنیاد خبروں کے ذریعے اکسانا اور بہکانہ اب ان کا روز کا معمول بن گیا ہے۔ میری ذاتی رائے میں تو پاکستانی میڈیا کو صحافت کا نام دینا خود صحافت کی توہین ہے بلکہ اگر پاکستانی میڈیا کو صحافت پر بدنما داغ کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پوری پاکستانی قوم کو پاکستانی میڈیا کی بد اعمالیاں یاد ہیں اگر کسی کو یاد نہیں تو میں یاد کراتا چلوں کہ جب وزارت داخلہ نے اسلام آباد میں پراپرٹی ٹائیکون کی اربوں روپوں کی قبضہ کی جانے والی اراضی خالی کروائی تو پاکستانی میڈیا کے کسی ایک ٹی وی چینل اور اخبار نے اس کی خبر شائع نہیں کی اور نہ ہی وزیر داخلہ شہریاد آفریدی کے اس کارکردگی کو سراہا گیا بلکہ ان کے اس تاریخی کارنامے کی پاداش میں ملک بھر کے اخبارات اور ٹی وی چینلز نے وزیر داخلہ کی کردار کشی شروع کردی اسی طرح سے سپریم کورٹ کے اسی پراپرٹی ٹائیکون کے کرپشن کے خلاف دیئے جانے والے ریمارکس اور فیصلوں تک کو پاکستانی میڈیا نے نظرانداز کیا یہ ہی نہیں منرل واٹر کمپنیوں کے خلاف سپریم کورٹ کی کارروائیوں کی خبروں کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا۔
یہ کس طرح کی صحافت ہے۔۔۔؟ کیا پاکستانی میڈیا کا کام واقعات اور عوام کے درمیان اطلاعات کی ترسیل کا ذریعہ بننا ہے؟ یا پھر اطلاعات کے آگے سیسہ پلائی دیوار کا کردار ادا کرنا ہے؟ میرے نزدیک اس سارے گورکھ دھندے کے ذمہ دار سارے صحافی نہیں ہیں بلکہ اس کے ذمہ دار وہ ادارے بھی ہیں جہاں یہ صحافی ملازم کی حیثیت سے کام کرتے ہیں اور ملازم ہونے کے ناطے ان پر ادارے کے قوائد و ضوابط کی پاسداری کرنا لازم ہوتا ہے اس طرح سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ میڈیا ہاﺅسز مالکان کے احکامات آزادی صحافت پر غلبہ پا گئے اور ان اداروں میں کام کرنے والے نامور صحافی بھی مالکان کے آگے بھیگی بلی بننے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بعض صحافتی یونینز کے عہدیدار تو اپنے باڈیز کو مالکان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ ٹی وی پر بیٹھ کر حکومت کو صبح و شام بھاشن دینے والے یہ صحافی اپنے مالکان کے سامنے جا کر کیوں گیڈر بن جاتے ہیں؟؟؟ اس کا جواب تو وہ خود ہی دے سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دینا ہی اس کا درست جواب ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے صحافتی یونینز آئے روز آزادی اظہار رائے کے لئے تو تحریکیں چلاتے رہتے ہیں وہ کبھی میڈیا ہاﺅسز کے مالکان کے آزادی اظہار رائے کے گلا گھونٹے والی پالیسیوں کے خلاف بھی آواز اٹھائیں اپنی تحریک کے ذریعے انہیں مجبور کریں کہ مالکان کسی بھی خبر کو روکنے کے لئے ان پر کوئی دباﺅ نہ ڈالیں۔ ورنہ اخبارات خبروں کے بجائے اشتہارات کا سپلیمنٹ بن کر رہ جائیں گے۔ اے پی این ایس اور پی ایف یو جے کو اس سلسلے میں ضرور کوئی نہ کوئی لائحہ عمل بنانا چاہئے انہوں نے اگر اس طرح سے نہیں کیا تو پراپرٹی ٹائیکون پاکستانی میڈیا کو اس طرح سے ریمیورٹ کنٹرول کے ذریعے اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرتا رہے گا۔ کس قدر دُکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے نامور عالم دین اور سیاسی رہنما مولانا سمیع الحق کا بہیمانہ قتل بحریہ ٹاﺅن میں واقع ان کے گھر پر کیا گیا لیکن کسی میڈیا نے بھی بحریہ ٹاﺅن کی ناقص سیکیورٹی یا پھر ان کی ملی بھگت کو قتل کے اس بڑی واردات میں زیر بحث نہیں لایا گیا اگر یہ واقعہ کسی سرکاری علاقے میں ہوا ہوتا تو پاکستان بھر کے ٹی وی چینلز دن رات طوطے کی طرح سے ٹائیں ٹائیں کررہے ہوتے، اس طرح سے کرکے پاکستانی صحافت اپنی ساکھ اور اپنی غیر جانبداری کو سبوتاژ کررہا ہے۔
ناظرین اور قارئین دونوں میں ہی ان کی حیثیت ختم ہوتی جارہی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ٹی وی دیکھنے اور اخبارات پڑھنے سے زیادہ لوگوں کا رجحان سوشل میڈیا کی جانب بڑھ رہا ہے اس لئے کہ ملکی عوام کو وہ تمام خبریں سوشل میڈیا پر پڑھنے اور دیکھنے کو مل جاتی ہیں جسے پاکستانی میڈیا اپنی زہریلی پالیسیوں کی وجہ سے زندہ درگور کرچکا ہوتا ہے۔ اسی میڈیا نے عمران خان کے دورہ چین کو ایک ناکام دورہ قرار دیا حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ چین کا یہ دورہ ایک روشن پاکستان کے لئے سنگ میل ثابت ہورہا ہے۔ یہ دورہ پاکستان کے تجارتی منڈی سے امریکی ڈالر کے منحوس سائے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا باعث بن رہا ہے اس لئے کہ چین اور پاکستان کے درمیان اپنے اپنے کرنسی میں کاروبار کرنے کے معاہدے ہو چکے ہیں۔ اسی طرح سے میڈیا نے سپریم کورٹ کی اس آبزرویشن کو بھی کوئی خاص کوریج نہیں دی ہے جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو معطل کرنے کا عندیہ دیا ہے جس کے نتیجے میں نواز شریف ان کی دختر مریم نواز اور داماد صفدر کی رہائی عمل میں لائی گئی تھی اس طرح کی صورتحال میں پاکستانی میڈیا بری طرح سے عوامی تنقید کی زد میں ہے اس لئے صحافتی رہنماﺅں کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوئی تحریک چلائے اور آزادی صحافتی کو مالکان کے شکنجے سے باہر نکالیں ایسا کرنے کے لئے اگر انہیں اپنے اداروں کا بائیکاٹ کرنے کی نوبت بھی آئے تو وہ اس سے بھی گریز نہ کریں اور یہ کڑوا گھونٹ پی ہی لے۔ اس لئے کہ موجودہ حکومت سے انہیں اپنے اس مقصد کی تکمیل میں حمایت ملنے کا امکان ہے۔
