عمران خان وزیر اعظم پاکستان کو دورئہ امریکہ سے کچھ حاصل ہو یا نہ ہو لیکن اس دورے سے امریکہ کو بالخصوص اور باقی ماندہ دُنیا کو بالعموم یہ واضح پیغام مل گیا ہے کہ عمران خان نہ صرف اندرون ملک بلکہ دُنیا بھر میں رہنے والے تمام پاکستانیوں کے سب سے زیادہ پسندیدہ اور مقبول لیڈر ہیں جس کی ایک جھلک اور اس کی تقریر سننے کے لئے پاکستانی سب کچھ چھوڑ کر دیوانوں کی طرح سے دوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ واشنگٹن کے ارینا اسٹیڈیم میں ہونے والا اجتماع ایک تاریخی اجتماع تھا، اتنا بڑا ہجوم امریکہ کی تاریخ میں اس سے قبل کسی غیر ملکی پاکستانی لیڈر کے لئے جمع نہیں ہوا تھا، یہ میں نہیں پاکستانی میڈیا نہیں بلکہ خود امریکی میڈیا کہہ رہا ہے اس عوامی سونامی نے اس بات کا بھی فیصلہ کرلیا کہ سلیکٹڈ کون تھا؟ اور الیکٹڈ کون ہے؟ وزیر اعظم عمران خان کے لئے آنے والا پاکستانیوں کا ٹھاٹے مارتا سمندر یہ ظاہر کررہا تھا کہ یہ کوئی سیاسی یا کسی پارٹی کا اجتماع نہیں ہے بلکہ لوگوں کا جوش و خروش اور ولولہ یہ ظاہر کررہا تھا جیسے یہ کوئی ملکی تحریک ہو، یہ ولولہ اور جذبہ تحریک پاکستان کی یاد تازہ کررہا تھا۔ لوگ کسی دباﺅ، زور و جبر پر نہیں، بلکہ خود اپنی مرضی اور محبت سے اپنے قائد عمران خان کا استقبال کرنے، ان کا دیدار کرنے اور ان کی تقریر سننے کے لئے وہاں آئے تھے۔ اس جوش و جذبے اور عوامی سمندر کی وجہ سے امریکہ سمیت دُنیا بھر کو معلوم ہو گیا کہ عمران خان پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر ہیں، ان کی جڑیں نہ صرف ملکی عوام بلکہ اوورسیز پاکستانیوں میں بھی پھیل چکی ہیں اور عمران خان کے ہوتے ہوئے پاکستان میں نہ تو حسین حقانی ڈاکٹرین کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ ہی منظور پشتین ڈاکٹرین۔۔۔ جس طرح سے اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان پر سلیکٹڈ ہونے کا الزام لگاتی ہے اگر ان کی بات کو تھوڑی دیر کے لئے درست بھی مان لیا جائے تو تب بھی واشنگٹن کے ارینا اسٹیڈیم میں ہونے والے اس بہت بڑے تاریخی اجتماع سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ اوورسیز پاکستانی بھی ملکی عوام کی طرح سے اپنی سیکیورٹی فورسز کی پشت پر کھڑے ہیں۔ یہ پیغام تو پہلے والے پیغام سے بھی زیادہ خطرناک ہے بلکہ یہ پیغام تو توپ کا گولہ بن کر مخالفین پر گرا ہوگا۔ اس لئے کہ ملک دشمنوں نے علاقائی جماعتوں اور میڈیا کے ایک گروپ پر بہت بڑی انویسٹمنٹ بھی سیکیورٹی فورسز کے خلاف نفرت پھیلانے پر خرچ کی تھی اس وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکہ ہر طرح سے ایک کامیاب ترین دورہ ہے۔ جس سے دونوں جانب پائی جانے والی غلط فہمیاں بھی دور ہو جائیں گی اور امریکہ کو افغانستان سے نکلنے اور خود پاکستان کو کشمیر کا تنازعہ حل کروانے میں آسانی ہو جائے گی۔
وزیر اعظم عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ون ٹو ون ملاقات کو دنیا بھر میں اہمیت دی جارہی ہے اور اس ملاقات اور اس میں کئے جانے والے فیصلوں کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ ساری دنیا کی نظریں اس ملاقات اور دونوں رہنماﺅں کے باڈی لینگویج پر لگی ہوئی تھی، پہلی بار امریکی صدر کو کسی ملک کے سربراہ سے ملتے ہوئے نروس دیکھا گیا جب کہ وزیر اعظم عمران خان حسب عادت پر اعتماد دکھائی دے رہے تھے، یہ ہوتا ہے فرق الیکٹڈ اور سلیکٹڈ کا۔۔۔ اور جیسا کہ عمران خان نے ارینا اسٹیڈیم واشنگٹن میں اجتماع کو گواہ بناتے ہوئے کہا کہ ”میں واپس پاکستان جا کر جیلوں سے ایئر کنڈیشن اور بڑے بڑے ٹی وی اتروا لوں گا“ تو اس سے یہ ہی اشارہ ملتا ہے کہ پاکستان میں ”رولز آف لائ“ یعنی قانون کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی راہ میں موجود باقی رکاوٹیں بھی ہٹا دی جائیں گی۔ میرے ذاتی خیال میں اس وقت براہ راست یا بالواسطہ طور پر میڈیا اور خود جمہوریت ہی احتساب زدہ سیاسی لوگوں کے سہولت کار کا کردار ادا کررہی ہے جس کی وجہ سے قانون کی حکمرانی میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اب اگر حکومت جیل مینوئل کے مطابق تمام قیدیوں سے یکساں سلوک کرنے کو یقینی بنائے گی تو سہولت کاروں کی جانب سے طرح طرح کی تاویلوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس لئے اگر حکومت درست معنوں میں احتساب کے عمل کو آگے بڑھانا چاہتی ہے تو وہ غیر جانبدارانہ طریقے سے اس سلسلے کو آگے بڑھائے اور سہولت کاروں کے ہر طرح کی تاویلوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ملک کے مروجہ قانون اور آئین کے تحت کارروائی کو آگے بڑھاتے جائیں اس وقت ملک کو ایک سخت اور بے رحم احتساب کی ضرورت ہے، ایک اس طرح کے احتساب کی جو سیاستدانوں، میڈیا، بیوروکریٹس اور ججوں سمیت ان تمام عناصر کے خلاف کارروائی کرے جو لوٹ مار کے اس گورکھ دھندے میں ملوث تھے۔ میں وزیر اعظم عمران خان کی اس بات سے پوری طرح سے متفق ہوں کہ سیاستدان کرپشن کے جن مقدمات میں پکڑے جارہے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی مقدمہ ان کی حکومت نے نہیں قائم کیا۔ یہ سارے مقدمات خود ان کے اپنے دور کے بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے تو صرف اداروں کو آزادی دی ہے کہ وہ اپنے اختیارات جو انہیں ملکی آئین نے دے رکھے ہیں وہ بلا روک ٹوک کے استعمال کرتے ہوئے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں کہ یہاں کسی عمران خان یا کسی سیاسی جماعت کی حکومت نہیں بلکہ قانون کی حکومت ہے اور جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا وہ پابند سلاسل ہوگا۔
عمران خان کے اس وژن اور اس مشن کی وجہ سے ہی لوگ اس کے دیوانے اور پروانے ہوتے جارہے ہیں جس کا مظاہرہ واشنگٹن میں ہوچکا ہے۔ لوگ سچ، ایمانداری اور دیانت داری کے دلدادہ ہیں۔ وہ پاکستان میں ایک صاف ستھری اور لوگوں کے حقوق اور مال کی محافظ حکومت کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک نیا پاکستان قومی خزانہ لوٹنے والے زرداری، شریف برادران اور مولانا ڈیزل جیسے گندے سیاستدانوں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ عافیہ صدیقی کے قید کے معاملے کو بھی حل کروائیں اور جو وعدے اس نے قوم سے کئے ہیں اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے موثر اقدامات کریں۔ ملک کو سہولت کار میڈیا اور جمہوریت کے نرغے سے باہر نکلوائیں۔ اسی میں قانون کی حکمرانی مضمر ہے۔
