موسم کا تغیر ایک قدرتی عمل ہے جس کا اثر ہر پھول، پھل، جاندار شے پر متوقع ہے اس تبدیلی کا احساس گھروں سے باہر کھلے پھولوں، پھلوں اور سبز پتوں کی بہار سے بخوبی ہو جاتا ہے ان پھولوں کا کھلنا گویا دلوں کا کھلنا ہے۔ جس میں ہر طرف سبز چادر بچھ جاتی ہے اور قدرت کا حسین نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے لیکن انہی پھولوں کے ساتھ ایک مضبوط، بلند تناور درخت بھی بڑی مستقل مزاجی سے کھڑا اپنے نیچے کھلنے والے پھولوں کی ہوا، بجلی، طوفان سے حفاظت کرتا ہے۔ پھول تو چند دن اپنی بہار دکھا کر مرجھا جاتے ہیں یا دوبارہ اگلی دفعہ کھلنے کے لئے وقت کا انتظار کرتے ہیں لیکن وہ درخت ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ ایسا ہی پرجوش، مضبوط، پر اعتماد وجود ایک باپ کا بھی ہے، اپنی اولاد کے لئے جو ڈھال بن جاتا ہے۔ صبح سے شام تک چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور بڑے بڑے مستقبل کے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے محنت و مشقت کی گولی کو شوگر کوٹڈ دوائی سمجھ کر اپنے حلق میں بخوشی اُتارتا ہے۔ اس کی محبت اس کی چاہت اس کی قربانی بے لوث ہے۔ جس کا اظہار وہ خصوصاً اس وقت ظاہر کرتا ہے جب اس کی اولاد کسی امتحان میں امتیازی کامیابی حاصل کرلے یا اس کے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے ان تھک محنت کرے۔ محنت کامیابی کی منزل تک اسی وقت لے جاتی ہے جب اس کے ساتھ اعتماد اور حوصلہ قدم بہ قدم چلیں اور یہ حوصلہ اولاد کے اندر خدا کی طرف سے باپ ہی پیدا کرسکتا ہے۔ اچھی درسگاہیں صرف اونچی تعلیم دیتی ہیں، اصل تربیت تو والدین کرتے ہیں اور اگر ماں باپ محنت اور ہمت سے آسمان پر کمند ڈالنے کی جرات رکھتے ہوں تو ان کی اولاد ضرور ان کا عکس ثابت ہوتی ہے۔ باپ کی اس عظمت کا واویلا مچانے کے لئے مجھے ایک بار پھر اپنے قلم کو جنبش دینا پڑی ہے کہ باپ کا وجود ایسی مضبوط دیوار ہے جو دوسروں کو سہارا دیتی ہے اور خود کسی سہارے کی محتاج نہیں۔ میرے نبی کی یہ حدیث کس قدر قابل غور ہے کہ ایک باپ کی دعا اولاد کے حق میں ضرور قبول ہوتی ہے۔ جتنا بڑا درجہ اتنی ہی بڑی ذمہ داری۔ ایک باپ صرف دینا ہی جانتا ہے خواہ محبت ہو، دعا ہو یا پھر دولت۔ ہم قرضہ دار ہیں، محتاج ہیں، اپنے والدین کے جن کی دعائیں آج ہمارے ساتھ ہیں۔ ہماری کمزوریوں کو ہماری طاقت میں بدلنے والے ہمارے عیبوں کو ڈھانپنے والے، اپنے منہ سے نوالہ نکال کر ہمارے آگے رکھنے والے، ہماری راتوں کے پہرے دار، ہماری خوشیوں کے امین، کہاں جا کر سو گئے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے بغیر ہماری زندگی ادھوری ہے، خوشیاں نا مکمل ہیں۔ پرندے کی طرح وسیع آسمان پر اُڑنا چاہتے ہیں لیکن پَر کھولنے کا حوصلہ نہیں۔ احساس محرومی کی چادر اوڑھے جرات اور بہادری سے کوسوں دور ہیں۔ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ایک باپ اپنے بچوں کو خود داری اور روشن مستقبل کی طرف گامزن کرنے کے لئے اپنے اصولوں کی نفی نہیں کرتا۔ اچھی سوچ، اچھی تعلیم و تربیت دے کر یہ واضح کرتا ہے کہ ماں کی خدمت اگر جنت کی ضمانت ہے تو پھر باپ کی خدمت اس جنت تک جانے کا راستہ۔
پھر ایسی ہستی کے لئے کون سا ”فادر ڈے“ کیسا ”فادر ڈے“۔ کیا ہماری ماﺅں نے ایسا کوئی دن منایا جس میں ایک دن کے لئے باپ کی عظمت کو سراہا ہو یا کوئی ایسا لمحہ آیا ہو ان کی زندگی میں جب باپ کا مشفقانہ روپ پل بھر کے لئے آنکھوں میں ستارہ بن کے چمکا ہو اور پھر غائب ہو گیا ہو۔
یہ مائیں، بہنیں، بیٹیاں ہیں جن کی تربیت اولاد کے دل میں ایک باپ کا حسین تصور اُجاگر کرتی ہیں اور باپ کی محبت اس کی تڑپ اولاد کے حق میں دعا بن کر عرش معلیٰ پر پہنچ کر اپنا آپ منواتی ہے۔ آج کی عورت نمونہ ہے آنے والی نسلوں کے لئے بشرطیکہ وہ یہ جان لے کہ گھر کی مضبوطی کا دارومدار ایک باپ کی خدمت، اطاعت پر مہضر ہے۔ عورت اگر اپنے شوہر کی وفادار ہے، خدمت گزار ہے، دیانت دار ہے، دلوں میں گھر کرنے والی ہے تو اس کی شخصیت کا اثر اس کی اولاد پر یقیناً ہو گا اس کا صبر، وفاداری گھروں کو جنت نظیر بنا دے گی۔ اور باپ کا احترام دنیا اور آخرت میں اُسے سرخرو کردے گا۔ اپنی اولادوں کی رگوں میں یہ احساس پیدا کرنا ہم ماﺅں کا فرض ہے کہ باپ کے بغیر وجود ہستی نامکمل ہے۔ ایک ادھورا پن رہ جاتا ہے۔ شخصیت میں خود اعتمادی ناسور بن کے سب کچھ ختم کردیتی ہے کیونکہ ایک باپ کے وجود کی مہک اس کی برکت نصیب نہیں ہوتی۔
دامن خالی رہ جاتا ہے، سوچ بھٹکتی رہتی ہے، کمزوریوں پر قابو پانے کا سلیقہ دم توڑ دیتا ہے، اس لئے ماﺅں کا فرض ہے کہ ایک دن والد کی اہمیت کو زندگی کا حصہ نہ بنائیں ہر روز ہر لمحہ ”فادر ڈے“ کا اہتمام کریں۔ ایک والد کی صبح سے شام تک کی محنت کو محسوس کرائیں۔ اپنے دودھ کے ساتھ خدا کا نور بچوں کی رگوں میں داخل کریں اور خدا کا نور یہی ہے جو والدین کی خدمت کا درس دیتا ہے۔
آج کل کی نسل کچھ حد تک ماڈرن ازم کا شکار ہے، بچوں کو پاس بیٹھ کر احساس نہیں ہوتا کہ ہمارے پاس کتنی بڑی نعمت ہے۔ شفقت پدری کس کا نام ہے، گاہے بگاہے انہیں فرض کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔ باپ گھر میں داخل ہو تو اسے سلام کرنا چھوٹی چھوٹی باتوں سے اپنی خدمت کا حق ادا کرنا کتنا ثواب ہے۔ کاش ہمارے بچے ان سب باتوں کا ادراک ذہنوں میں پیدا کریں۔ پھر کسی کو ”فادر ڈے“ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کیونکہ پھر ہر لمحہ ہر گھڑی باپ کے نام ہوگی۔ ان شاءاللہ
851