سات سالہ بچہ جب ہسپتال پہنچا تو وہ اساتذہ کے تشدد کی تاب نہ لا سکا اور جان سے چلاگیا۔ اور سات سالہ جسم ہوتا ہی کتنا ہے کہ تشدد برداشت کر سکے اور اس عمر کے بچے پہ اتنا ظلم کیوں کیا گیا۔ رپورٹ میں کچھ نہیں ملا۔
ستر دہائیوں کی سیاسی گٹھ جوڑ کے بعد پہلی بار عوام کی آنکھیں روشنی اور امید سے جگمگائیں کہ اتنے سالوں میں لوگوں نے محض سیاسی خاندانوں کی چالبازیاں اور ملک کی بربادیاں ہی دیکھی تھیں۔ جس وطن کو انگریزوں اور ہندو¿وں کے شر سے چھڑواکر اپنے لوگوں کیلئے آباد کیا اسے اپنے ہی لوگوں نے لوٹا۔۔ ہر طرح سے لوٹا۔ مثالیں دینے لگ جاو¿ں تو مطالعہ پاکستان میں مکمل ردوبدل کی ضرورت پیش آجائے گی مگر ہم تاریخ میں صرف وہی لکھیں گے جو مثبت سوچ کو پروان چڑھا سکے حالانکہ کلاس کے سب سے لائق بچے بھی مطالعہ پاکستان میں بری طرح پٹ جاتے ہیں۔ جب پڑھتے تھے تو سمجھ نہیں آتی تھی کہ ایسا کیوں ہے مگر اب سمجھ آتی ہے کہ ایسا یوں ہے کہ اصل تاریخ تو پڑھائی ہی نہیں۔ جغرافیائی حدود اور موسموں کے اثرات کے ساتھ ساتھ ایسے ایسے ادوار اور نکات رٹوائے جاتے ہیں جن کا پریکٹیکل لائف میں کوئی استعمال نہیں۔
تاریخ نے آج بھی ہمیں الجھا کے رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی حدیں ، حدود اربع، معدنی ذخائر بہت اہمیت کا حامل ہےیہی وجہ ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت ان ستر دہائیوں سے کبھی پاکستان کو ایک آزاد ملک تسلیم کر ہی نہیں پایا اور آج جب میں یہ کالم لکھ رہی ہوں اس وقت بھی انڈین حملوں کی خبریں آرہی ہیں۔ میری دعا ہے کہ میرے پاک وطن پر کسی ناپاک وجود کا سایہ بھی نہ پڑے اور خدا اسے تمام بیرونی آفتوں سے محفوظ رکھے۔ پر اصل خطرات تو ان اندرونی پھلتے پھولتے ناسور بنتے ہوئے معاملات سے ہیں جن کا مداوا بہت مشکل ہے پر یقیناً ممکن نہیں۔۔
عمران خان نے کرپشن کے خلاف جنگ شروع کی تو آج ہم اس مقام پر ہیں کہ یہ کہہ سکیں کہ لگن سچی ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔ پر سوال یہ ہے کہ ہم اس سچی لگن کا بیج بو بھی رہے ہیں یا نہیں؟
ابھی سات سالہ بچے کی مدرسے میں تشدد سے واقع ہونے والی موت سے دل اداس تھا کہ اتنے چھوٹے سے بچے کے جسم پر تشدد کے نشان تھے۔ آخر جب ماں باپ افورڈ نہیں کرسکتے تو پیدا کرتے ہی کیوں ہیں۔ فیملی پلاننگ کی ادویات اور مصنوعات تو گورنمنٹ کی طرف سے بھی فری ڈسپنسریز میں مل جاتی ہیں کیونکہ ریاست جانتی ہے اس کے کرپشن زدہ کندھوں پہ اتنے نازک بوجھ ڈال دئیے گئے تو یہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کیسے مچے گی۔ ماں باپ پیدا کرتے ہوئے تو سوچتے بھی نہیں ہوں گے مگر بعد میں اپنی اور آنے والی نسلوں کی آخرت سنوارنے کیلئے اتنے فکر مند ہوجاتے ہیں کہ انھیں دنیاوی تعلیم سے ہٹا کے اخروی تعلیمات میں ڈال دیتے ہیں اور خود مزید اولاد کی تیاری میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ نازک پھول جنھیں سینے سے لگا کے سینچا جانا تھا ان کو بوسیدہ مدرسوں کے ننگے فرشوں پہ سونے کیلئے بھیج دیا جاتا ہے جہاں پہ ذہنی، جسمانی، نفسیاتی اور وحشیانہ تشدد ہوتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آج ایک آرٹیکل پڑھ رہی تھی کہ گے ازم gayism سب سے زیادہ چرچ سے پھیلا تو سوچا کہ کبھی کسی نے غور نہیں کیا آج ہمارے مدرسوں میں بھی بارہا یہ واقعات سننے کو آتے ہیں۔ آئے دن۔۔ اور وہ واقعہ تو روح تک کو جھنجھوڑدیتا ہے جب ایک نماز کے دوران ایک بچے کی لاش چھت سے لٹک رہی تھی جس کو امام نے ریپ کرکے قتل کردیا تھا۔
درندوں نے مذہب کو بھی پاک نہ رہنے دیا اور معصوم زندگیاں داو¿ پہ لگتی رہیں پر کوئی سوال کرنے والا نہیں کسی سے بھی۔ کہ یہ جنت کے پھول زندگی کی دوزخ میں جھلسا کے جنت کو کیوں بھیج دئیے جاتے ہیں
اسی دن گریڈ ۱۰ کے ایک بچے کو کوئی فنڈز جمع نہ کرانے کی پاداش میں پرنسپل سمیت اساتذہ نے مار مار کر جھاڑیوں میں پھینک دیا۔ گھر والے جب بچے کو لینے گئے تو انھیں سکول کے اندر جانے نہیں دیا جارہا تھا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے دل چاہتا ہے کہ مطالعہ پاکستان کا نصاب ہر سال بدلنا چاہئے اور سال بھر میں ہونے والے اس طرح کے واقعات شامل کئے جانے چاہئیں تاکہ اصل صورتحال کو سامنے لایا جائے اور دکھایا جائے کہ کرپشن اور تباہی کے دہانے پہ کھڑے ایک ملک کو اس کے معمار، اس کے تعلیمی ادارے اور درسگاہیں اور یہاں کے معلم کتنی زور سے دھکا لگا کر گرانے میں مصروف ہیں۔ جن اداروں میں کریکٹر تعمیر کرنے کی بجائے مارکٹائی کرکے طلبا کو باہر پھینک دیاجائے وہاں سے مستقبل کے معمار تو مشکل ہی نکلیں گے
ہم میں سے ہر کوئی صرف سسٹم کو کوستا ہے لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس سسٹم کو بگاڑنے میں ہر کوئی اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے مگر اس کو سنوارنے کے نام پہ ہر طرف خاموشی ہے۔ ہم اپنے اردگرد نظر کیوں نہیں دوڑاتے کہ آخر کس طرح ہم مطالعہ پاکستان کو حقوتاً مثبت تاریخ سے مزین کرسکتے ہیں۔ اپنے آس پاس نظر دوڑائیےکہ آپ کرپشن کے خاتمے اور اپنے اردگر کی تعمیر میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کوئی معصوم پھول آپ کی کسی بھی طرح کی کوششوں سے بچ سکے یازندگی کی راحتوں میں پنپ سکے۔ سوچئیے۔۔۔۔
700