تو گویا، قصہ مختصر اب نقشے میں سے مقبوضہ کشمیر حذف کرکے تسلیم کر لیجئے کہ کشمیر اب ہندوستان کا ایک صوبہ بن چکا ہے۔ اب ان کی 26 جنوری کی قومی تقریب میں جہاں اس کے تمام صوبوں کے ثقافتی طائفے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں وہیں اب کشمیر کا طائفہ بھی شامل ہو جائے گا اور ہم جو اپنی 56 فیصد آبادی کو گنوا کر کچھ عرصے تک غم و غصے کا اظہار کرتے رہے اور پھر اس ملک کو دولخت ک رنے والے کے اس فقرے کو ”ادھر تم ادھر ہم“ کو قبول کرکے اور یہ کہ یہ خطہ تو ایک اندھا کنواں تھا ہر سال یہاں سیلاب آتے رہتے تھے، ہم آخر کب تک ان بھوکے بنگالیوں کو پالتے، اچھا ہوا پاپ کٹا، کہہ کر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا۔ اب اس طرح ہماری شہ رگ کی رٹ لگانے والے کچھ دن بعد
طبیعت کو ہوگا قلق چند روز
بہلتے بہلتے بہل جائے گی
اور یہ قصہ پارینہ بن جائے گا آج لوگ کنٹرول لائن جو کہ اب بین الاقوامی سرحد بن چکی ہے پر جا کر جہاد جہاد کے نعرے لگا رہے ہیں ایک اور سانحہ کے انتظار میں لگ جائیں گے۔ جس کی کھچڑی پک رہی ہے اب اس ملک کی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے دیش بنانے کی باتیں کررہے ہیں۔ ایک نابالغ نوزائیدہ بقول انگلینڈ کے اخبار کے ”GUY“ اب برملا کہہ رہا ہے کہ اب سندھو دیش بننے سے کوئی نہیں روک سکتا اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جس کا نانا اس ملک کو حصول اقتدار کے لئے دو ٹکڑے کر چکا ہے۔ جس کا پر نانا انگریزوں کی دلالی کرکے ”سر“ کا خطاب اور سندھ میں جاگیریں حاصل کر چکا تھا اور جس کی ماں ہندوستان کے ٹینکوں پر بیٹھ کر پاکستان فتح کرنے کی باتیں کرتی تھی۔
یہ سب اسی خاندانی ملت فروش کی ہے اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ اس نے نا سمجھی میں کوئی بات کی ہے بلکہ کشمیر تو ایک ٹریلر ہے اب وہ قوتیں جو اپنا ایجنڈا پورا کرنا چاہ رہی ہیں اور پاکستان کے وطن فروش انہیں یہ تسلی دلا چکے ہیں کہ آپ ہمارے سر پر ہاتھ رکھو ہم آپ کا ایجنڈا پورا کرکے دیں گے۔
آج پوری دنیا آپ کی چیخ و پکار پر نہ توجہ دے رہی ہے اور نہ ہی انہیں آپ سے کوئی ہمدردی ہے۔ آپ ہندوستانی اخبارات، ان کے ٹی وی پر نیوز اور دیگر میڈیا کو دیکھ لیجئے جو وہاں ذرا برابر بھی آپ کی یہ بے ڈھنگی گفتگو سنیں جو ٹی وی چینلز پر زرخرید افراد کررہے ہیں، کوئی ردعمل یا تذکرہ ہو بلکہ اب ان کے ٹی وی ڈراموں میں ”کون بنے گا کروڑ پتی“ جیسے ٹی وی شوز میں یہ سوال کہ زمین پر ”سورگ“ (جنت) کس جگہ کو کہتے ہیں؟ تو اس کا جواب ہے اپنے کشمیر کی دھرتی کو۔ اب اس موضوع پر فلمیں بننے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، آپ کا سیاپا آپ پیٹتے رہو انہوں نے اپنا سارا ہوم ورک تیار کرکے رکھا ہوا ہے۔ اب سے 25-20 سال پیچھے جائیے اس وقت سے اسرائیل ہندوستان فلمی مرکز ”بالی ووڈ“ میں سرمایہ کاری کررہا ہے جس کا اعتراف پچھلے دنوں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے کیا اس نے کہا کہ وہ بالی ووڈ کے عشق میں مبتلا ہیں، بالی ووڈ انہیں جان سے عزیز ہے اور وہ بہت خوشی محسوس کرتا ہے کہ اس کا بالی ووڈ بھی اس سے محبت کرتا ہے، یہ الفاظ محض الفاظ نہیں تھے بلکہ ایک منظم منصوبے کے تحت بالی ووڈ میں ایسی کہانیوں پر فلمیں بننی شروع ہوئیں جن میں مسلمانوں کو دہشت گرد، بدمعاش، عیش پرست اور بدکار دکھایا جاتا تھا، یہ کردار اس طرح سے پیش کئے جاتے تھے جس سے دیکھنے والے نفرت محسوس کرتے ہیں اس طرح ان کرداروں کو ایک مخصوص ٹوپی جو نمازی پہنتے ہیں، پہنائی جاتی تھی اور کاندھوں پر ایسے رومال ڈالے ہوتے تھے جیسے کہ حاجی استعمال کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ کاسٹیوم ان ولن کا ٹریڈ مارک بن کر رہ گیا ہے بلکہ لفظ ”بھائی“ ایک گالی بن کر رہ گیا ہے اور دہشت گرد کو ”بھائی“ کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور اب بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ ہالی ووڈ میں عرصے سے چل رہا ہے، جہاں کہ تمام برے کردار مسلمانوں کے ہوتے تھے اور اتنے گھناﺅنے ہوتے تھے کہ ہر مسلمان کو ان کے تناظر میں ہی دیکھا جاتا تھا۔ اس طرح یہ میڈیا صرف اور صرف مسلمانوں کی کردار کشی کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ وہاں خصوصی طور پر عربوں کو عیاش اور بدکرداروں کے رول میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ بالی ووڈ میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اب اس میں نئی بات یہ پیدا ہوئی کہ سعودی عرب میں 240 جدید ترین سینما تعمیر کئے جارہے ہیں جن میں بالی ووڈ کی فلمیں پیش کی جایا کریں گی اور ان میں پاکستانیوں کو اس طرح پیش کیا جائے گا جو قابل نفرت ہوں گے اور اس طرح مسلمانوں کے گھر میں نقب لگا کر اس کی رہی سہی ہمدردی بھی ختم کرادی جائے گی۔ اب یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتے بڑھتے یہ ملت اسلامیہ میں رخنے ڈال کر اس کو بھی منتشر کر دے گا۔
آج ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے یہاں کی نام نہاد مذہبی جماعتیں بھی جو دین میں تفرقے پیدا کررہے ہیں، یہ اپنے ماننے والوں کو جو تربیت دے رہے ہیں نہ وہ مذہبی حیثیت سے نہ ہی دنیاوی حیثیت سے ان کے کارآمد ہے، نہ ہی معاشرے کے لئے آج یہ کیلوں کو اسلامی طریقے سے رکھنے کے طریقے سکھا رہے ہیں اور کھیرے کو کاٹنے کا اسلامی طریقہ سکھا رہے ہیں۔ ان کا نہ ہی کوئی جدید دنیا سے تعلق ہے اور نہ ہی بدلتے ہوئے سماجی حالات سے، یہ اپنے حلوے مانڈے کے لئے عوام کو ریاست کے خلاف اور سیاسی جماعتوں کے آلہ کار کی حیثیت سے کردار ادا کررہے ہیں جب کہ دشمن اس اسلامی (نام کو ہی سہی) ریاست کو تباہ و برباد کرنے کے لئے سارے وسائل استعمال کررہا ہے اس میں اسلحہ سے لے کر ہر وہ حربہ شامل ہے جس سے قوم میں افراتفری، گردہ بندی، فرقہ واریت اور انتشار پیدا ہو مگر ہم ہیں کہ محض باتوں کی طوطا مینائیں بنا کر اڑا رہے ہیں اور خواب خرگوش میں پڑے ہوئے ہیں جب کہ زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے۔
530